نئی کابینہ کی تشکیل سے متعلق دو نوٹی فکیشن جاری کیے گئے ہیں جن کے مطابق مجموعی طور پر 14 وزیروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے،کابینہ میں 4 سینئر وزیر بنائے گئے ہیں جبکہ دیگر محکمے زیادہ تر ان منتخب اراکین اسمبلی اور مشیروں کو دیے گئے ہیں جو خالدخورشید کی کابینہ کا حصہ تھے۔
نئی کابینہ میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو دو دو، جے یوآئی کو ایک اور پی ٹی آئی کو سات وزرا شامل کیے گئے ہیں۔
کابیینہ میں امجد زیدی،انجینئراسماعیل،غلام محمد اور عبدالحمید کو سینیئر وزیر بنا کر انہیں بالترتیب تعمیرات، خزانہ،سیاحت و خوراک اور بلدیات کے محکمے سونپ دیےگئےہیں۔
نوٹی فکیشن کے مطابق دیگر 10 وزارتوں میں غلام شہزاد آغا کو تعلیم،فتح اللہ خان کو پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، شمس لون کو داخلہ، مشتاق حسین کو واٹر اینڈ پاور، دلشاد بانو کو ویمن ڈویلپمنٹ، سید سہیل عباس کو صحت و قانون، حاجی رحمت خالق کو ایکسائز وٹیکسیشن، انجیئرمحمد انور کو زراعت،حاجی شاہ بیگ کو جنگلات،جنگلی حیات و ماحولیات اور سریا زمان کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے محکمے دیے گئےہیں۔
نئی کابینہ میں شامل سینئر وزرا میں امجد زیدی اور عبدالحمید پی ٹی آئی، غلام محمد مسلم لیگ ن اور انجینئراسماعیل کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے۔ دیگر 10 وزرا میں پیپلزپارٹی کےغلام شہزاد آغا، مسلم لیگ ن کے انجینئرمحمدانور، جے یوآئی ف کےحاجی رحمت خالق اور پی ٹی آئی کے 7 اراکین فتح اللہ خان، شمس لون، مشتاق حسین، سہیل عباس، دلشاد بانو،حاجی شاہ بیگ اور ثریا زمان شامل ہیں۔
کابینہ میں سب سے زیادہ حصہ دیامر کو ملا جہاں سے حاجی گلبر خان وزیراعلیٰ، حاجی رحمت خالق، انجینئر محمد انور، حاجی شاہ بیگ اور سریا زمان وزیر بن گئے۔گلگت کا دوسرا نمبر ہے جہاں سے فتح اللہ خان، دلشاد بانو اور سہیل عباس وزیر اور سادیہ دانش ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئیں۔گانچھےتین وزرا کےساتھ تیسرےنمبر پر رہا جن میں انجینئرمحمداسماعیل، عبدالحمید اور مشتاق حسین شامل ہیں۔ غذر کا چوتھا نمبر ہے جہاں سے غلام محمد سینیر وزیر بن گئے جبکہ نذیراحمد ایڈووکیٹ پہلے ہی اسپیکر کے عہدے پر فائز ہیں۔ استور، کھرمنگ اور اسکردو کو بالترتیب شمس لون، امجد زیدی اور غلام شہزاد آغا کی صورت میں ایک ایک وزارت ملی۔ہنزہ، نگر اور شگر کو کابینہ میں نمایندگی نہ مل سکی۔
یہ بھی پڑھ لیں۔
کیا پی ٹی آئی نوازشات اورنا انصافیوں کا بوجھ اٹھا پائےگی،خصوصی رپورٹ
ڈرامائی صورتحال
سابق وزیراعلیٰ خالد خورشید کی جعلی ڈگری کیس میں نااہلی کےبعد امکان تھا کہ اسمبلی میں واضح عددی اکثریت کے باعث نئےوزیراعلیٰ بھی پی ٹی آئی سے ہی منتخب ہوں گے مگر صورتحال نے ایسا کروٹ لیا کہ لوگ دیکھتے رہ گئے۔ وزارت اعلیٰ کےلیے پی ٹی آئی کے دو گروپوں کے چار امیدوار سامنے آگئے۔ پی ٹی آئی کے ہم خیال گروپ سے راجہ اعظم خان، راجہ زکریہ مقبون اور جاویدعلی منوہ جبکہ فارورڈ بلاگ سے حاجی گلبر خان امیدوار بن بیٹھے۔ اپوزیشن جماعتوں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور جمیعت علمائے اسلام نے حاجی گلبر کی حمایت کا اعلان کیا۔
انتخاب سے قبل ہم خیال گروپ نے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو میدان میں حاجی گلبرخان واحد امیدوار رہ گئے۔ 13 جولائی کو اسمبلی اجلاس میں 32 میں سے 20 ارکان نے شرکت کی جن میں سے 19 ارکان کی حمایت سے حاجی گلبرخان وزیراعلیٰ بن گئے۔
واضح رہے کہ 33 رکنی گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی 24منتخب اراکین، 3 ٹیکنوکریٹس اور 6 خواتین کی مخصوص نشستوں پر مشتمل ہے۔خالد خورشید کی نااہلی کے بعد یہ تعداد 32 رہ گئی ہے۔
وزارت اعلیٰ کےلیے جوڑ توڑ کی کوشش کے دوران ایک اور ڈرامائی صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر امجد ایڈووکیٹ نے اچانک ایک غیر متوقع اعلان کرکے سب کو حیران کردیا۔ انہوں نے پہلے اسپیکر نذیرایڈووکیٹ کےخلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد واپس لےلی اور پھر اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دےدیا۔ا مجد ایڈووکیٹ نے اس اہم اقدام کی وجہ نہیں بتائی مگر قیاس کیا جارہا تھا کہ وزیراعلیٰ کے انتخاب کے معاملے پر ان کے قمر زمان کائرہ اور گورنر مہدی شاہ سے اختلافات پیدا ہوگئےتھے۔اگلے دن امجد ایڈووکیٹ اور قمر زمان کائرہ اسلام آباد روانہ ہوئے، پیچھےپارٹی کے جمیل احمد اور سادیہ دانش نے پریس کانفرنس کرکے حاجی گلبر کی حمایت کا اعلان کردیا۔ نئی کابینہ میں امجد ایڈووکیٹ کو شامل نہیں کیا گیا۔
کیا امجد ایڈووکیٹ کو قربانی کا بکرا بنایا گیا؟
سابق وزیراعلیٰ خالد خورشید کو نااہل کرانے کے کرداروں میں ایک اہم کردار امجد ایڈووکیٹ بھی تھے، خالد خورشید کی جعلی ڈگری کا کیس پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی شہزاد آغا نے دائر کیا اور امجد ایڈووکیٹ نے عدالت میں بطور وکیل پیروی کی۔ 3 جولائی کو چیف کورٹ کے تین رکنی بینچ نے خالد خورشید کی قانون کی ڈگری جعلی قرار دی جو انہوں نے برطانیہ کی ایک یونیورسٹی سے حاصل کرنے دعویٰ کیا تھا۔ عدالت نے خالد خورشید کو نا اہل کردیا۔ اسپیکر نذیر ایڈووکیٹ نے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے شیڈول کا اعلان کیا تو پی ٹی آئی کے ہی ایک منحرف رکن عدالت چلے گئے۔ چھ جولائی کو عدالت نے انتخابی شیڈول کو معطل کیا، اس سماعت کے دوران نے جج نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی جمع کرائی گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ تحریک عدم اعتماد پیپلزپارٹی کے امجد ایڈووکیٹ نے ہی جمع کرائی ہے۔
ظاہر ہے امجد ایڈووکیٹ نے جو بھی قدم اٹھایا وہ پارٹی پالیسی اور ہدایات کے مطابق ہی اٹھایا ہوگا۔غلط ہی سہی مگر یہ حقیقت ہے کہ ان ہی کوششوں سے خالد خورشید نااہل ہوگئے اور اسمبلی میں پی ٹی آئی کی واضح اکثریت دھڑام تختہ ہوگئی۔ ہونا تو یہ چاہیےتھا کہ نئی کابینہ سے متعلق فیصلہ سازی میں ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی، مگر کام ہونےجانے بعد امجد ایڈووکیٹ کو کھڑےلائن لگادیا گیا۔گوکہ اسپیکر نے امجد ایڈووکیٹ کا استعفیٰ قبول نہیں کیا لیکن نئی کابینہ میں ان کو شامل نہ کرکے ان کےحامیوں کےایک وسیع حلقے کو مایوس کیا گیا۔
Comments
Post a Comment