وفاق میں برسراقتدارایک اورجماعت گلگت بلتستان میں مقامی حکومت بنانےمیں کامیاب توہوگئی، کیا وہ دھاندلی کےالزامات،بھاری بھرکم کابینہ،مخصوص اضلاع واشخاص پرنوازشات اوردیگراضلاع میں بڑھتےاحساس محرومی کابوجھ اٹھاپائےگی؟ یاپھراپنےمقبول فلسفے "یوٹرن" پراصرارکی بنیادپراپنی مدت پوری کرےگی چاہےزمینی حقائق اورعلاقائی مسائل کچھ بھی کیوں نہ ہوں۔
براہ راست انتخابات
اٹھارہ نومبرکوہونےوالے24 نشستوں پربراہ راست انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف 10 نشسیں حاصل کرنےمیں کامیاب ہوئی جبکہ اس کی اتحادی جماعت مجلس وحدت مسلمین کو ایک نشست حاصل ہوئی، پیپلزپارٹی 3 اور مسلم لیگ ن 2 نشستوں پرکامیاب کےساتھ بالترتیب دوسرے اورتیسرے نمبر پررہیں، جمعیت علمائےاسلام ف کو ایک نشست پرکامیابی حاصل ہوئی۔ باقی ماندہ 7 نشستوں پرآزاد امیدوار کامیاب ہوئے جن میں سے 6 نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیارکی۔ یوں پی ٹی آئی اتحادی رکن کو ملا کرمجموعی طورپر 17 نشستوں کےساتھ بھاری اکثریت حاصل کرنےمیں کامیاب ہوئی۔
پی ٹی آئی نےگلگت اوراستور سےدو دو، غذر، بلتستان، دیامر سے ایک ایک نشست حاصل کی جبکہ ہنزہ ،شگر اورکھرمنگ کی واحد نشستیں بھی سمیٹ لیں۔
گلگت سےپی ٹی آئی کے فتح اللہ خان اور سہیل عباس خان جبکہ استور سےخالد خورشید اورشمس الحق لون کامیاب ہوئے۔
غذرسےنذیراحمد ایڈووکیٹ، بلتستان سےراجہ ذکریا، دیامر سے حاجی گلبرخان، ہنزہ سے کییٹن ریٹائرڈعبیداللہ ،شگر سےراجہ اعظم خان اورکھرمنگ سے سید امجدزیدی منتخب ہوئے۔
اسکردو سے کامیاب ہوںے والے آزادامیدوار وزیرسلیم خان اورراجہ ناصرعبداللہ نےپی ٹی آئی میں شمولیت اخیتارکی۔ ایک ایم ڈبلیوایم کے قاضی میصم کےحصےمیں آئی میں آئی جو پی ٹی آئی کےاتحادی ہیں۔
گانچھے سےآزاد حیثیت سےجیتنےوالےحاجی عبدالحمید اورمشتاق حسین بھی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔
دیامرسےشاہ بیگ اور نگرسےجاوید علی منوہ بھی بطورآزاد امیدوار کامیاب ہوئے اور پی ٹی آئی میں شمولیت اختیارکی۔
اپوزیشن
پیپلزپارٹی کےامجدحسین ایڈووکیٹ گلگت اور نگرسےجیتے اورجی بی اسمبلی میں بیک وقت دونشستوں پرجیتنےکا رکارڈ قائم کیا تاہم انہیں ایک نشست چھوڑنی ہوگی جس پردوبارہ انتخاب ہوگا۔ پی پی کو ایک نشست گانچھے سے محمد اسماعیل کی صورت میں ملی۔
مسلم لیگ ن کو ایک نشست دیامر اورایک غذر سے ملی، محمد انور اور غلام محمد بالترتیب کامیاب ہوئے، جےیوآئی ف کو واحد نشست دیامر سے رحمت خالق کی صورت میں ملی۔ جبکہ غذر سےکامیاب ہونےوالے آزادامیدوار نوازخان ناجی نے بھی حکومت کےبجائے اپوزیشن بنچوں پربیٹھنےکو ترجیح دی۔
مشیران،معاونین خصوصی،کوآرڈی نیٹرز
پی ٹی آئی حکومت نے دومشیران ، تین معاونین خصوصی اور دو کوآرڈی نیٹرکا نوٹی فکیشن بھی کردیا ہےجس کےمطابق شمس الدین لون اورسید سہیل عباس کومشیر، الیاس صدیقی، محبوب علی اورحیدرخان معاون خصوصی جبکہ شمس الدین اور نوشاد عالم کو کوآرڈینیٹر بنادیا گیا۔
ٹیکنوکریٹس اورخواتین نشستیں
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں ٹیکنوکریٹس کی 3 اورخواتین کی 6 مخصوص نشستوں کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔
مخصوص نشستوں میں پی ٹی آئی کو 4 خواتین اور 2 ٹیکنوکریٹس کی نشستیں ملی، پی پی پی کو خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی ایک، ایک اور مسلم لیگ (ن) کوخواتین کے لیےمخصوص کوٹےسےایک نشست حاصل ہوئی۔
مخصوص نشتوں پر پی ٹی آئی سے منتخب خواتین میں کنیز زہرا، ثریا محمد زمان، دلشاد بانو اور کلثوم الیاس جبکہ ٹیکنوکریٹس میں اکبرعلی اور فضل رحیم شامل ہیں۔
پی پی پی کی صوبائی سیکریٹری اطلاعات سعدیہ دانش خواتین اور غلام شہزاد ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر منتخب ہوئے۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے صنم بی بی مخصوص نشست پر منتخب ہوئی۔
حکومت سازی
گلگت بلتستان کے نئے وزیراعلی خالد خورشید نے کابینہ تشکیل دے دی جس میں 12 وزراء، دو مشیر، تین معاونین خصوصی اور دو کوآرڈی نیٹر شامل ہیں، وزیراعلی، اسپیکر اورڈپٹی اسپیکر کےساتھ مجموعی تعداد 22 بنتی ہےجو کہ حکومتی بنچوں کےتمام اراکین کی مجموعی تعداد کے مساوی ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھیے کہ جتنے لوگ منتخت ہوئے سب وزیر اور مشیربن گئے۔ وہ جو نہ جیت سکے ان کوبھی محکمےمل گئے۔ ماسوائے ان کےجن کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ حکومتی بنچوں پر 2 ٹیکنوکریٹ اور 4 خواتین اس کےعلاوہ ہیں۔
نئی حکومت میں خالد خورشید وزیراعلی، سید امجد زیدی اسپیکر اور نذیراحمد ایڈووکیٹ ڈپٹی اسپیکربن گئے۔
کابینہ میں راجہ ذکریا مقپون اور کیپٹن ریٹائرڈ عبیداللہ سینیروزیر بن گئے۔ انہیں بالترتیب جنگلات،جنگلی حیات وماحولیات اور صنعت، تجارت وافرادی قوت کےقلمدان سونپ دیے گئے۔
جاویدمنوہ وزیرخزانہ،راجہ اعظم خان وزیرتعلیم اورگلبرخان وزیرصحت بنادیےگئے۔
فتح اللہ خان کواطلاعات و پی اینڈ ڈی، راجہ ناصرمقپون کوسیاحت،ثقافت، امورنوجوانان وکھیل کا قلمدان دیاگیا۔
قاضی میصم وزیرزراعت، مشتاق حسین وزیرپانی وبجلی، حاجی عبدالحمید وزیرایل جی و آرڈی بنادیے گئے۔
وزیرسلیم کو ورکس اورحاجی شاہ بیگ کواکسائز اورزکوۃ وعشر کی وزارت دے دی گئی۔
دومنتخب اراکین سہیل عباس اورشمس الدین لون کو مشیر بناکر بالترتیب کان کنی ومعدنیات اور خوراک کےمحکمے سونپ دیے گئے۔
معاونین خصوصی الیاس صدیقی، محبوب علی اور حیدرخان کوبالترتیب معدنیات، لائیو اسٹاک وفشریز اور بہبود آبادی وترقی نوجوانات کے محکمے دیے گئے۔ جبکہ نوشادعالم اور شمس الدین بطور کوآرڈینیٹر بالترتیب محکمہ سوشل ویلفیئر اور محکمہ ترقی نسواں کے ذمےدار ہوں گے۔
کس کوکتنا نوازا گیا
نئی حکومت میں کس ضلع کو کتنی نمایندگی ملی اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
تبدیلی سرکاری کی نئی کابینہ میں محکمے سمیٹنے میں دیامر سرفہرست رہا۔ یہاں سے پی ٹی آئی کو ابتدائی طورپر صرف حاجی گلبرخان کی ایک نشست ملی تھی، بعد میں ایک آزاد رکن شاہ بیگ نےپی ٹی آئی جوائن کیا، کابینہ میں ان دونوں کو وزارتوں کےعلاوہ دو ہارے ہوئے امیدواروں حیدرخان اورنوشاد عالم میں سے ایک کو معاون خصوصی اور ایک کو کوآرڈینیٹر بنا کر محکمےسونپ دیے گئے۔ اس کے علاوہ یہاں سے ایک ٹیکنوکریٹ اور خصوصی نشست پر ایک خاتون کو بھی منتخب کیا۔ کابینہ میں دیامر کے ارکان کی تعداد 4، سرکاری بنچوں پر تعداد 6 جبکہ اپوزیشن کی دو نشستوں سمیت اسمبلی میں مجموعی تعداد 8 تک جاپہنچی۔
دوسرا نمبر پرگلگت ہےجہاں سے پی ٹی آئی کے دو امیدوارفتح اللہ خان اور سید سہیل عباس کامیاب ہوئےتھے۔ ایک کووزیر اور ایک مشیر بنا دیا گیا۔ اس کےعلاوہ یہاں سےاتحادی ایم ڈبلیوایم کےترجمان الیاس صدیقی کومعاون خصوصی اور دلشاد بانوکو خواتین کی نشست پر منتخب کیا گیا۔ اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی کی خاتون رکن صادیہ دانش اور مسلم لیگ ن کی صنم بی بی کا تعلق بھی گلگت سےہے۔ اس طرح کابینہ میں گلگت کےارکان کی تعداد 3، سرکاری بنچوں پرتعداد 4 اوراپوزیشن کے 3 ارکان کوملا کراسمبلی میں مجموعی تعداد 7 ہوگئی۔
تیسرا نمبر استور اورگانچھے کارہا۔ دونوں اضلاع میں پی ٹی آئی کےدو دو ارکان کے مقابلے میں تین تین محکمےسونپے گئے۔
استورکی دونوں نشستیں پی ٹی آئی کو ملی تھیں جن میں سےایک خالد خورشیدنےوزارت اعلی اور دوسرےشمس الدین لون نے بطورمشیر محکمہ سنبھالا، اس کے علاوہ ایک معاون خصوصی محبوب علی نے محکمہ سنبھال لیا۔
گانچھےسےکامیاب ہونےوالےدو آزاد اراکین حاجی عبدالحمید اور مشتاق حسین نےپی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی، دونوں کو وزارتوں کے علاوہ ایک ہارے ہوئے امیدوار شمس الدین کو کوآرڈینیٹر بنا کر محکمہ سونپ دیا گیا۔ اس طرح اپوزیشن کےایک رکن کوبھی ملاکر اسمبلی میں گانچھےکےارکان کی تعداد 4 ہوگئی۔
چوتھا نمبراسکردو کا ہے جہاں سے پی ٹی آئی ابتدائی طورپر ایک نشست پر کامیاب ہوئی تھی، بعد میں دو آزاد اراکین پی ٹی آئی میں شامل ہوئےجبکہ ایک نشست اتحادی جماعت ایم ڈبلیوایم کو ملی تھی، نئی کابینہ میں راجہ ذکریا کو سینییروزیر، راجہ ناصرمقپون، وزیرسلیم اور قاضی میصم وزیربن گئے۔ اگرچہ اسکردو کو کوئی اضافی محکمہ نہیں ملا لیکن ٹیکنوکریٹ کی ایک اورخواتین کی 2 مخصوص نشستیں بھی ملیں۔ اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی کا واحد ٹیکنوکریٹ غلام شہزاد آغا کا تعلق بھی اسکردو سے ہے۔ اس طرح کابینہ میں اسکردو کےارکان کی تعداد 4، حکومتی بنچوں پر تعداد 7 اوراسمبلی میں مجموعی تعداد 8 ہوگئی۔
شگرکی واحد نشست پرپی ٹی آئی کے راجہ اعظم خان جیتے، انہیں وزیر بنادیاگیا۔ کھرمنگ کی واحد نشست سید امجد زیدی جیتے جنہیں اسپیکرکی ذمہ داری سونپی گئی۔
ہنزہ کی واحد نشست پی ٹی آئی کےعبیداللہ بیگ جیتےجنہیں سینیروزیربنایا گیا۔
نگرسے تحریک اسلامی کےجاویدمنوہ آزاد حیثیت سےجیت کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئےجنہیں وزارت خزانہ کا قلمدان دیا گیا۔
غذر سےپی ٹی آئی کوایک ہی نشست ملی جہاں سے منتخب نذیراحمد ایڈووکیٹ کوڈپٹی اسپیکر بنادیا گیا۔
اتنی بڑی تفریق کیوں؟
محکموں کی بندربانٹ میں اتنی بڑی تفریق کیوں؟ اس سوال کےجواب میں گلگت کے سینیرصحافی اکبرشاہ کا کہنا تھا کہ پیسےکا مبینہ استعمال اس کے اہم اسباب میں سےایک ہے۔ انہوں نےکہا " عام تاثریہ ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم سے لےکر وزارتوں، مشیروں، معاونین خصوصی اورکوآرڈینٹرز، ٹیکنوکریٹس اور خواتین کی نشستوں تک ہر جگہ پیسا چل گیا، جسےوفاقی وزیرامورکشمیروگلگت بلتستان علی امین گنڈاپور نے پائیہ تکمیل کو پہنچایا۔ اس تاثر کو رد کرنےکی زیادہ گنجائش بھی نہیں ہے۔" ان کا کہنا تھا کہ چند مخصوص اضلاع یا اشخاص کو نوازنے میں جہاں پیسوں کا عمل دخل ہے وہاں اور بھی کئی اسباب ہوسکتے ہیں جیسےعلاقائی اور مسلکی امتیاز۔
غذرکو" کھڑےلائن" کیوں لگا دیا گیا؟
مشیروں، ٹیکنوکریٹس اور مخصوص نشست پر انتخاب میں مکمل نظرانداز کیےجانےپر ضلع غذرمیں شدید مایوسی اورغم وغصےکا اظہارکیا جارہاہے۔ اس سلسلےمیں شگر، کھرمنگ، ہنزہ اور نگرکی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں، ان پانچوں اضلاع سے مشیر،معاون خصوصی، کوآرڈینیٹر، ٹیکنوکریٹ اورخواتین نشست پرکوئی انتخاب نہیں ہوا۔ لیکن فرق یہ ہے کہ اول شگر، کھرمنگ اور ہنزہ ایک ایک نشست پرمشتمل اضلاع ہیں اورنگرکےایک رکن نےجیتنے کےبعد پی ٹی آئی میں شمولیت اختیارکی تھی۔ دوئم ان چاروں اضلاع کےارکان کو محکمے دیےگئےہیں۔
غذرکی صورتحال یکسر مختلف ہونےکی وجوہات کچھ ہیں۔
اول، غذر سےمنتخب رکن نذیر احمد کو ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ دیا گیا جوکسی حد تک علامتی ہے۔وہ کابینہ کا حصہ ہے نہ ہی کسی محمکےکا ذمےدار، ان کی ذمےداری صرف اسپیکر کی عدم موجودگی میں اسمبلی کی کارروائی چلانےکے سوا کچھ نہیں۔
دوئم، غذر تین حلقوں پرمشتمل ضلع ہےجہاں ووٹوں کا تناسب دیگر بہت سے اضلاع سےزیادہ ہے۔ مثال کےطور پر اسکردو میں ووٹوں کی کل تعداد 98570 اور حلقے 4 ہیں۔ دیامر میں ووٹرز کی کل تعداد 119452 اور حلقے 4، استورمیں کل ووٹرز 62401 اور حلقے 2 ہیں۔ اسی طرح گانچھے میں ووٹرزکی کل تعداد 76813 اور حلقے 3 ہیں۔ جبکہ غذر میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعدا 115314 لیکن حلقوں کی تعداد صرف 3 ہے۔
سوئم، پچھلی اسمبلی میں پی ٹی آئی کو راجہ جہانزیب کی صورت میں واحد سیٹ بھی غذر سےہی ملی تھی۔ یہ غذرہی تھا جس نےپی ٹی آئی کو اسمبلی سےباہر ہونےکی شرمندگی سے بچایا۔ اس بار پہلےدن سے ہی راجہ جہانزیب کی پوزیشن کمزور نظرآرہی تھی۔ دانش مندی کا تقاضہ یہ تھا کہ راجہ جہانزیب کوبالواسطہ نشست پرزیرغور لاکر پارٹی ٹکٹ کسی اور کودیا جاتا لیکن شائدعالم غیب کے معاجزات کی امید پر پی ٹی آئی نے اس سیٹ سےمحرومی کا سامان خود ہی کیا۔
چہارم، غذرحلقہ ایک میں پی ٹی آئی کے ظفر شادم خیل نےجتنےووٹ حاصل کیےوہ اپنی نوعیت کاایک رکارڈ ہے۔ اگرچہ وہ نوازخان ناجی سےہارے،لیکن حلقے پردہائیوں سےراج کرنےوالے پیرکرم علی شاہ کےبیٹے سید جلال شاہ کو پیچھے چھوڑ کردوسرےنمبرپرآئے، یہ کامیابی سیٹ جیتنے سے کم نہ تھی۔
یہ بات تومجھ میں آتی ہےکہ پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کےلیےآزاد اراکین کی حمایت درکار تھی، جس کےلیے یا تو انہیں بھاری رقوم ادا کرنی تھیں یا پھر حکومت میں مراعات دینی تھی۔ لیکن بات یہیں تک محدود ہوتی تو بھی اتنا بڑا سمجھوتہ نہیں تھا، یہاں تو الٹا گنگا بہنے لگا۔ دیامرسے دو ہارےہوئے امیدواروں کو محکمے، تیسرے ہارے امیدوار کی بیٹی کومخصوص نشست اورایک ٹیکنوکریٹ کی سیٹ بھی دےدی گئی، گانچھے سے ہارےہوئےامیدوار اوراستور سے وزیراعلی کے قریب ترین شخصیت کومحکمے، اسکردو کو دوخواتین نشستیں اور متنازع طریقےسےایک ٹیکنوکریٹ کی سیٹ دی گئی۔ گلگت کوایک اضافی محکمہ اورایک خاتون نشست دےدی گئی۔ اس سےتاثر ملتا ہےکہ محکموں کی تقسیم میں علاقائی اور مسلکی امتیاز بھی بھرتا گیا۔
اس امتیازی سلوک پر جہاں پورے ضلعے میں مایوسی کا اظہار کیاجارہا ہے وہاں پی ٹی آئی کے ضلعی عہدیداروں بھی کھل کرغم وغصے کا اظہار کررہےہیں، جمعرات کو پی ٹی آئی کے ضلعی عہدیداران نے گاہکوچ میں پریس کانفرنس کی جس میں وزیراعظم، وفاقی وزیرامورکشمیر، گورنراور وزیراعلی سےمطالبہ کیا گیا کہ وہ کابینہ میں غذرکو نمایندگی یقینی بنائیں،اب بھی موقع ہے کہ یہاں سے مشیر،معاون خصوصی اورکوآرڈی نیٹر کے عہدوں پرتعیناتی کی جاسکتی ہے۔ مطالبات پرتوجہ نہ دی گئی تو وہ آیندہ کا لائحہ طے کریں گے۔
غذر کےحلقہ تین یاسین سے منتخب ن لیگ کےرکن اسمبلی غلام محمد نےبھی اسے مایوس کن قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی کابینہ میں غذرکو نمایندگی نہیں دی گئی۔ ڈپٹی اسپیکر کا علامتی عہدہ دے کو عوام کو بہلایا گیا ہے۔ مشیروں، معاونین خصوصی، ٹیکنوکریٹس اورخواتین کی نشستوں پرغذرکو مکمل نظرانداز کیا گیا۔ پی ٹی آئی حکومت نےغذر کوکھڑے لائن لگا دیا۔
پی ٹی آئی کی حکومت بنی کیسے
رواں سال جون میں جب ن لیگ کی حکومت اپنی مدت پوری کرکے رخصت ہوئی اور نگران کابینہ تشکیل دے کر اگست میں نئے انتخابات کرانے کا اعلان ہوا تو یقینی لگ رہا تھا کہ اس بار جی بی اسمبلی کی سابقہ روایات ٹوٹ جائیں گی۔ وفاق میں برسراقتدار جماعت حکومت نہیں بنا سکےگی۔ اس عوامی تاثر کی کئی اسباب تھے۔
اول تو وفاق کی تبدیلی سرکار پچھلے دو سال کےدوران گلگت بلتستان سے بالکل بےغرض رہی۔ اس دوران گلگت بلتستان کے ترقیاتی بجٹ پربھاری کٹ لگی۔ کورونا وبا کےباعث گلگت بلتستان شدید بحران کا شکار ہوا تب بھی وفاقی حکومت پر بےحسی چھائی رہی، جس کی وجہ سے مقامی حکومت کوچین سے مدد لینی پڑی۔
پچھلے ڈھائی سال کےدوران صدرپاکستان ڈاکٹرعارف علوی اور وزیراعظم عمران خان دورے تو کرتے رہے لیکن علاقےکی بہتری کےلیے کسی بڑے منصوبےکے اعلان سےگریز کیا۔ یہاں بھی ان کی تقریروں کا ہدف اپوزیشن پر تنقید اور گالم گلوچ اور ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی سےعوام کی توجہ ہٹانےکی کوشش کرتے رہے۔
دوئم ملک بھر میں مہنگائے کے طوفان نےیہاں کےعوام کی بھی چیخیں نکال دیں۔ لوگ معاشی بحران کی زد میں آئے۔ بینکوں کے قرض دہندگان سب سےزیادہ پریشان نظرآئے۔
سوئم گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کے الیکٹبلز کی تعداد نہ ہونےکے برابر تھی۔ گلگت میں پی ٹی آئی کےصدرسیدجعفرشاہ، اسکردومیں فدا ناشاد، غذرمیں راجہ جہانزیب اور دیامرمیں ڈاکٹر زمان کےسوا اور کوئی معتبر نام نظرنہیں آرہا تھا۔ کورونا وبا کی آڑ میں الیکشن ملتوی کرنے کا اعلان ہوتے ہی پی ٹی آئی کی تلوار نیام سے باہر آگئی اور وہ کمال کردیے کہ منظرہی بدل گیا۔ ن لیگ کےالیکٹیبلزکو کیسے توڑا گیا اس کا ذکر سابق وزیراعلی حافظ نے پارٹی کےقائد میاں نوازشریف کو بریفنگ میں کیا تھا جس کی وڈیوں رکارڈنگ سوشل میڈیا پر سامنےآئی تھی۔
چہارم، الیکشن میں سرکاری وسائل کا بےدریغ استعمال دیکھنے میں آیا، وزیراعظم کی جانب سےعبوری صوبےکا اعلان اور وفاقی وزیروں کی الیکشن مہم میں بھرپورشرکت، اسکیموں اور نئے اضلاع بنانے کے اعلانات سامنے آِئے۔
پنجم الیکشن کمیشن کی جانب داری بھی قابل دید رہی۔ ویراعظم اور وفاقی وزراء کی الیکشن مہم میں بھرپور شرکت اور اعلانات پر الیکشن کمیشن نےآنکھیں بند کیے رکھے۔ اپوزیشن کے مرکزی رہنماوں کو نہ صرف جلسوں میں شرکت سے روکا بلکہ چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کےخلاف پریس کانفرنسیں کرتےنظرآئے۔
الیکشن مہم کےآخری دن پیپلزپارٹی نے گلگت میں بڑے جلسے کا اعلان کیا تو الیکشن کمیشن نے بلاول بھٹوزرداری کو شرکت سےروکا لیکن زلفی بخاری سمیت وفاقی وزراء اس دن بھی جلسوں سےخطاب کرتے رہے۔
ان تمام حربوں کےباوجود پی ٹی آئی بمشکل دس نشستیں حاصل کرسکی اور حکومت بنانے کےلیے اسےآزاد امیدروں کا سہارا لینا پڑا۔ جبکہ گزشتہ انتخابات میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن بالترتیب سولہ اوراٹھارہ نشستیں حاصل کرنےمیں کامیاب ہوئی تھیں۔
قانون سازاسمبلی میں پی ٹی آئی کےکم ازکم تین ارکان ایسےہیں جن کا انتخاب مستقبل میں چیلنج بھی ہوسکتا ہے، گلگت کےحلقہ دو سے منتخب ہونےوالے فتح اللہ کی سیٹ سےجڑا تنازع وقتی طور پر تو تھم چکا ہےلیکن ختم نہیں ہوا، پیپلزپارٹی نے دھاندلی کا الزام لگا کر جوڈیشل انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا ہے، دی گئی ڈیڈلائن میں یہ مطالبہ پورا نہ ہوا تو پی پی دوبارہ سڑکوں پرآسکتی ہے۔ اس سیٹ پرالیکشن کمیشن نےپہلے پی پی کےامیدوار جمیل احمد کی 600 سےزائد ووٹوں کےساتھ جیت کا اعلان کیا لیکن اگلے روز اچانک نتیجہ تبدیل کرکےپی ٹی آئی کے فتح اللہ کی دو ووٹوں سےبرتری ظاہر کی گئی۔ ووٹوں کی دوبارہ گنتی در گنتی کےدوران جو اطلاعات موصول ہوئیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ پوسٹل ووٹوں کےشمار میں مبینہ ہیرا پھیری کی گئی۔ بحرحال ان الزامات کی حقیقت شفاف اورغیرجانبدارجوڈیشل انکوائری میں ہی سامنے آ سکتی ہے۔
پی ٹی آئی پر ٹیکنوکریٹس کے انتخاب میں بھی دھوکہ دہی کےالزامات لگائےجارہے ہیں۔ یہ الزامات کسی اور نے نہیں خود پی ٹی آئی کے امیدواروں نے عائد کیے ہیں۔ پی ٹی آئی نےٹیکنوکریٹس کےلیے پارٹی کےڈپٹی سیکریٹری جنرل اےآئی جی ریٹائرڈ حشمت اللہ اوردیرینہ کارکن صابرحسین کےنام منظورکیے تھے، دونوں کےکاغذات نامزدگی بھی منظورہوگئے تھے لیکن آخری لمحےمیں ان کی جگہ بلتستان سےاکبرعلی اور داریل سے فضل رحیم منتخب ہوگئے۔ حشمت اللہ اور صابرحسین نے عدالت جانے کا اعلان کررکھا ہے۔
خصوصی رپورٹ، راحت علی شاہ
Comments
Post a Comment