اسلام آباد: سپریم کورٹ کے 1999 کے فیصلے کی روشنی میں گلگت بلتستان میں بنیادی حقوق کی فراہمی اور علاقائی عدالتوں کے دائرہ اختیار سے متعلق کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت، کمیٹی سے پندرہ دن میں رپورٹ طلب، سماعت 3 دسمبر تک ملتوی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے گلگت بلتستان آرڈر 2018 سے متعلق سرتاج عزیز کمیشن کی سفارشات کی رپورٹ ایک ماہ بعدعدالت میں جمع کرادی۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان آرڈو 2018 پرنظرثانی اورعلاقائی عدالتوں کےدائرہ کارکےجائزے سے متعلق یکم نومبرکے حکم کی روشنی میں 10 رکنی کمیٹی کی تشکیل سےمتعلق رپورٹ بھی اٹارنی جنرل نے عدالت میں پیش کردی۔
جمعرات 15 نومبر کو
کیس کی سماعت شروع ہوئی تواٹارنی جنرل انور منصور نے جواب جمع کراتے ہوئے کہا کہ
میں نے وفاقی حکومت کوخط لکھ
دیاتھا، وفاق نے میرا خط کابینہ کےسامنے رکھا۔
جسٹس گلزار نےاٹارنی جنرل سے استفسار کیا
کہ حکومت نےگلگت بلتستان آرڈر 2018 بنایا ہے، جس پرعدالتی معاون
سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ یہ نیا قانون عدالت میں چیلنج کیاگیا ہے۔ اٹارنی جنرل
نےکہا کہ گلگت بلتستان میں قوانین کی تبدیلی کی سفارشات کابینہ کے ساتھ رکھی
تھیں۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نےکمیٹی کی تشکیل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئےاٹارنی جنرل سےکہا کہ آپ اس معاملے کو سرد خانے میں ڈالنا چاہتے ہیں، یہ وہاں پر
رہنے والے لوگوں کا معاملہ ہے، گلگت بلتستان کے لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں،
تمام کمیٹی ممبران کو بلا لیں، بیٹھ کر معاملات طے کر لیں۔ جسٹس گلزار نےکہا کہ
آپ اس مسئلہ کو براہ راست حل کیوں نہیں کرتے؟ اٹارنی جنرل نےعدالت کا بتایا کہ
میں بھی کمیٹی کا حصہ ہوں، آج کابینہ کا اجلاس ہورہا ہے۔ چیف جسٹس نےکہا کہ وفاقی
وزیرامور کشمیر اس کمیٹی کے کنوینئر ہیں، چھوڑدیں اجلا س کو، یہاں آکر بتائیں
مسئلہ کب اور کیسےحل کرنا ہے، انھیں بتائیں کہ عدالت بلا رہی ہے۔
اس پرعدالتی معاون اعترازاحسن نےکہا کہ میں
اٹارنی جنرل کےموقف کی حمایت کرتا ہوں، بین الاقوامی قوانین کو بھی دیکھنا ہوگا،معاملہ حساس ہے، وفاقی حکومت کو وقت دیاجاناچاہیے۔
سماعت کے دوران جسٹس عطا بندیال نےکہا کہ
موجودہ کمیٹی میں وزارت خارجہ کی نمائندگی نہیں،جسٹس گلزر نے کہا کہ 1947 کےبعد
اس حوالے سے پالیسی آجانی چاہیےتھی،عدالت نےکمیٹی کو 15 دن میں رپورٹ
جمع کرانے کوحکم دیتے ہوئےکیس کی سماعت تین دسمبر تک ملتوی کردی۔
گلگت بلتستان کا مقدمہ
سپریم کورٹ کے1999 کے فیصلےمیں وفاقی حکومت کو حکم دیاگیا تھاکہ وہ
خطےکی متنازع حیثیت کومدنظر رکھتے ہوئےگلگت بلتستان کےعوام کوتمام شہری حقوق فراہم
کرے۔ گلگت بلتستان بارکونسل اورڈاکٹرمحمد عباس کی جانب سے دائر آئینی درخواستوں
میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت اس فیصلےکی روشنی میں گلگت بلتستان کےمستقبل کا تعین کرےاوروہاں کی عدالتوں کے دائرہ اختیار کوواضح کرے۔ اس حوالے سے
دیگر 32 متفرق درخواستوں کوبھی یکجہا کیا گیا ہے۔
26 ستمبر 2018 کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے کیس کی پہلی سماعت کی جس
میں عدالتی معاونین مقرر کرنے اوران سےمشاورت کےبعد لارجربنچ تشکیل دینے کا اعلان
کیا۔
9 اکتوبر کی سماعت میں ن
لیگ دور میں گلگت بلتستان آرڈر 2018 متعارف کرانے والے سرتاج عزیز کی رپورٹ طلب
کی گئی۔
یکم نومبرکی سماعت میں عدالت نےوفاقی حکومت سےگلگت بلتستان آرڈر 2018 پرنظرثانی اور گلگت بلتستان کی عدالتوں
کے دائرہ کار سے متعلق رپورٹ طلب کی۔
یکم نومبرکی سماعت میں عدالت نےوفاقی حکومت سےگلگت بلتستان آرڈر 2018 پرنظرثانی اور گلگت بلتستان کی عدالتوں
کے دائرہ کار سے متعلق رپورٹ طلب کی۔
کمیٹی کی تشکیل
حکومت
نے سپریم کورٹ کے حکم پر 10 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہےجس کی سربراہی وزیرامور کشمیر
وگلگت بلتستان کررہےہیں۔ کمیٹی میں وفاقی وزیرقانون،اٹارنی جنرل، گلگت بلتستان کے
گورنر اوروزیرقانون شامل ہیں۔ کمیٹی میں سیکرٹری خارجہ امور، سیکریٹری دفاع، سیکریٹری
امورکشمیر بھی شامل کیے گئے ہیں۔ گلگت بلتستان کونسل کےڈپٹی سیکرٹری
خزانہ کمیٹی کے سیکرٹری مقرر کیے گئے ہیں۔
گزشتہ
روز(بدھ 14 نومبر) کو جاری اعلامیے کے مطابق کمیٹی سرتاج عزیز کمیشن، 1999 کے
الجہادٹرسٹ کیس میں سپریم کورٹ کی سفارشات اور اٹارنی جنرل کی سفارشات کی روشنی میں
گلگت بلتستان آرڈر 2018 کا ازسرنوجائزہ لےگی۔ کمیٹی اقوام متحدہ کی قراردادوں
اور
پاکستان کےعالمی سطح پراپنائے گئے موقف کی روشنی میں گلگت بلتستان کی حیثیت کا بھی
جائزہ لےگی۔
یہ بھی پڑھیں
Comments
Post a Comment