گلگت بلتستان لینڈ ریفارمز بل 2024
گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے حوالے سے تھوڑا بھی سیاسی شدبد و شعور رکھنے والے افراد ہمیشہ سے گلگت بلتستان کے وسائل کو لےکر شدید تحفظات رکھتے ہیں۔
گلگت بلتستان کو پچھلے سات دہائیوں سے کسی آئینی
کور میں نہ رکھنے کی وجہ سے یہاں بہت ساری پیچیدگیاں پیدا ہوئیں ہیں، یہاں کے قدرتی
وسائل کی بندر بانٹ ہوتی رہی ہے، اسٹیٹ سبجیکٹ رولز 1927 کو عملاً معطل رکھا گیا،
نوتوڑ رولز 1978 کو حاوی رکھا گیا، اوپر سے لینڈ ریونیو ایکٹ 1967 کو بھی اپنایا گیا
جبکہ یہ تمام وقتی انتظامات اور قوانین یہاں کے وسائل کو لوٹنے کےلئے اپنائے گئے،
ان میں سے کوئی ایک اقدام بھی عوامی مفادات کو مدنظر رکھ کر نہیں کیا گیا۔ لامحالہ
اس کا اثر یہاں کی غریب عوام کی زندگیوں میں بہت برا پڑا۔ غیر مقامی افسر شاہی اور
بیروکریسی کو بے تحاشا اختیارات ملے جنہوں نے نہ صرف یہاں کے فنڈز پر بے تحاشا
کرپشن کی بلکہ یہاں کے قدرتی وسائل کو مال بےجا و مال غنیمت سمجھ کر نہ صرف لوٹ
مار کی بلکہ یہاں کے حقیقی مالکان کو ان ہی کی اراضیات سے بے دخل کیا گیا نتیجتاً یہاں
کے باسی اپنے ہی وطن میں پناہ گزینوں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ اگر ان مظالم
پر کوئی آواز اٹھا لے تو ان کی آواز دبانے کےلئے ان کے خلاف غداری کے مقدمات بنائے
گئے، کالے قوانین کا بےدریغ استعمال کر کے ان کو ہمیشہ کےلئے خاموش کرانے کی کوشش
کی جاتی رہی۔
اس بابت کتابوں کے کتابیں لکھی جا سکتی ہیں مگر
مضمون کے دامن میں اتنی کشادگی ممکن نہیں
اس لئے اختصار کے ساتھ عرض کرتا چلوں کہ لینڈ ریفارمز گلگت بلتستان کے لیے
زندگی اور موت کا مسئلے سے بھی اہم مسئلہ ہے۔
پی ٹی آئی کی پچھلی صوبائی
حکومت نے بھی اس مد میں لینڈ ریفارمز کرنے کی کوشش کی، اس وقت بھی میں نے کچھ اہم
نکات پر توجہ رکھ کر لینڈ ریفارمز کرنے کی تجویز دی تھی مگر بدقسمتی سے وہ یہ اہم
کام کسی نہ کسی وجہ سے نہیں کر سکے۔ اب اگر موجود حکومت لینڈ ریفارمز میں سنجیدہ
ہے اور شنید ہے کہ گلگت بلتستان لینڈ ریفارمز کا ابتدائی مسودہ پارلیمانی خصوصی کمیٹی
نے منظور بھی کیا ہے اور آگے کے مراحل میں داخل ہو چکا ہے تو قانون سازوں کو یہ بات اپنے پلے باندھ لینا چاہیے
کہ گلگت بلتستان کے نوجوان ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ علم، آگاہی اور
شعور رکھتے ہیں اس کے باوجود یہاں بے روزگاری بالے کھولے غریبوں کے گھروں میں سوئی
ہوئی ہے، کوئی فیکٹری ، کوئی کارخانہ کوئی کمپنی کا وجود نہیں، زمین داری اور کاشتکاری
کےلئے بھی مواقع نہیں، گلگت بلتستان کے بڑے بڑے قابلِ کاشت قطعات کو پہلے ہی نوتوڑ
رولز 1978 کے آڑ میں خالصہ سرکار گردان کر ہتھیا لیا گیا ہے، گلگت بلتستان کے سارے
پہاڑ لینڈ ریونیو ایکٹ 1967 کے سیکشن 49 اور مائننگ کنسیشن رولز 2016 کے نام پر غیر
مقامیوں کو الاٹ کر کے فارغ کیا گیا ہے، بڑی تعداد میں عوامی اراضیات ، جنگلات و
چراگاہوں کو نیشنل پارکس کے نام سے اٹھایا لیا گیا ہے اور بچی کچی کسر اب گرین ٹوریزم
کمپنی کے نام سے پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ایسے میں عملاً گلگت بلتستان کا پڑھا لکھا
نوجوان بےروزگاری کے دھندلکوں میں پھنسا ہوا ہے، کوئی بھی وقتی انتظام اور
چالاکی کو گلگت بلتستان کا پڑھا لکھا نوجوان قبول کرنے کےلئے تیار نہیں، اس لئےمستقل
طور پرایک ہی باربہتر لینڈ ریفارمز کرکے ان مسائل کا ایک حد تک تدارک کیا جا سکتا
ہے۔
لینڈ ریفارمز کا یہ کام کئی دہائیوں بلکہ گلگت
بلتستان کی تاریخ میں کئی صدیوں بعد کیا جا رہا ہے تو اس میں جلد بازی میں بڑے فیصلے
کرنے کے بجائے سنجیدگی کے ساتھ تمام اسٹیک ہولڈرز اور سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے
ساتھ مشاورت کرکے ریفارمز کئے جائیں تو سب کےلئے قابل قبول ہوگا ورنہ تو پھر ایک
نئے فتور کو جنم دینے کے مترادف ہوگا۔
اب میں وہ بنیادی سوالات، اور نکات کی طرف توجہ
مبذول کراونگا جو لینڈ ریفارمز کرتے وقت مدنظر رکھنے ضروری ہیں بلکہ ان میں سے کئی
ایک کو درست کرنا اور کچھ کو لینڈ ریفارمز
میں شامل کرنا بھی ازبس ضروری ہے۔
1۔ یہ
کہ UNCIP اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں پاکستان کی جانب سے گلگت بلتستان کی
متنازع حیثیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کا مسئلہ کشمیر میں اس ایکٹ کے ممکنہ مضمرات
کیا ہونگے اگر کوئی ہیں تو ان کو مربوط طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔
2۔ گلگت
بلتستان چونکہ پاکستان کا آئینی حصہ نہیں اس لئے صوبائی سرحدی تنازعات خاص طور پرخیبرپختونخوا
نے گلگت بلتستان کے جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کی ہوئی ہے اورباشا ایریا، قرمبر ایریا اور شندور ایریا
میں بڑی تعداد میں اراضیات ہتھیا لی گئی ہیں، ان علاقوں میں یکم نومبر 1947 سے
پہلے والی حدود کا تعین کرکے حدودِ بندیوں
کی جائے۔
3۔ ایک
سوچی سمجھی سازش کے تحت 31 جنوری 1927 کے اسٹیٹ سبجیکٹ رولز کو گلگت بلتستان میں
عملاً معطل رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے غیر مقامیوں نے نہ صرف یہاں اراضیات خریدی
بلکہ بڑے بڑے قطعات کو جعلی اور غیر قانونی طریقے سے اپنے نام الاٹ بھی کرائے، اس کے علاؤہ نوکریوں میں بھی
ہاتھ صاف کیا گیا، یوں اس اہم قانون کے معطل رہنے سے گلگت بلتستان کے باسیوں کو
ناقابل تلافی نقصان ہوا، لینڈ ریفارمز کے نام پر اس اہم قانون کو ختم نہ کیا جائے
بلکہ اس قانون کو تحفظ بھی دیا جائے۔
4۔ کچھ
باثر لوگوں نے محکمہ ریونیو کے ملازمین کے ساتھ ساز باز کر کے نوتوڑ رولز 1965(جواعلان
نمبر 38 مورخہ 14 جولائی 1932 آرڈر نمبر 21 آف 1936 مورخہ 10 جنوری 1936 اور
ناردرن ایریاز نوتوڑ رولز 1978) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الاٹمنٹس اور انتقالات کی
ہیں ۔ ان غیر قانونی الاٹمنٹس اور انتقالات کو منسوخ کیا جائے۔
5۔ یہ کہ تمام غیر قانونی کان کنی لیزز کو منسوخ کیا جائے جو مائننگ ایکٹ اور
گلگت بلتستان مائننگ کنسشن رولز2016 کے خلاف ہیں، اس کے علاؤہ کان کنی کے قوانین میں
اہم ترمیمات کرنے کی ضرورت ہے ۔ لینڈ ریونیو ایکٹ 1967 کے سیکشن 49 کو گلگت
بلتستان میں ختم کرکے گلگت بلتستان
کی عوام کو ان مائنز کا اصل مالک قرار جائے۔
6۔ گلگت
بلتستان میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ نوٹیفکیشن نمبر
Res-misc/23/72 مورخہ 12-10-1972 کے ذریعے کیا گیا تھا
لیکن بدقسمتی سے یہاں کے راجوں کے غیر قانونی اثر و رسوخ کی وجہ سے ابھی تک گلگت
بلتستان کے بہت سے علاقوں میں جاگیروں کی زمینیں ان کے حقیقی مالکان کو منتقل نہیں
کی گئی ہیں۔ یہ انتہائی اہم مسئلہ حل ہونا چاہیے اور نوٹیفکیشن کے مطابق جاگیر کی
زمینیں ان کے حقیقی مالکان کو منتقل کی جائیں۔
7۔ مقامی
کمیونٹی کی شکایات کو دور کرتے ہوئے پارکس کے تمام قوانین اور جنگلات کے قوانین/ ایکٹس
پر نظرثانی کی جانی چاہیے اور نیشنل پارکوں کے لیے ان کی قیمتی اراضیات ، چراگاہیں،
نالہ جات ، بروکس وغیرہ بغیرمعاوضے کے اٹھا لئےگئے ہیں ان اراضیات کا معاوضہ وہاں کی
مقامی کمیونٹیز کو دی جائے۔
8۔ گلگت
بلتستان کے عوام کے مفادات کے خلاف کی گئی
تمام غیر قانونی انتقالات، جمعبندیاں، ریکارڈ
آف رائٹس، الاٹمنٹس کو منسوخ کیا جائے اور اس ایکٹ کے سائے میں ایسے غیر قانونی
اندراجات کو کوئی پناہ فراہم نہ کی جائے۔
9۔ گلگت
بلتستان استور اور بلتستان کے بہت ساری عوامی اراضیات، چراگاہیں اور جنگلات جموں و
کشمیر کے بارڈرز کے ساتھ لگتی ہیں، لائن آف کنٹرول سے منسلک صرف 5 یا 10 کلومیٹر علاقے کولائن آف کنٹرول کا
علاقہ گردانا جائے باقی کے علاقے جو سیاحتی اہمیت کے حامل ہیں وہاں کی زمینیں مقامی
عوام کی ملکیت قرار دےکر وہاں کے مقامی لوگوں کو حوالے کیا جائے۔
10۔ گلگت
بلتستان میں اب تک جتنے اراضیات سے متعلق قوانین بنے ہیں سب کو ختم کرکے پورے گلگت
بلتستان کے لیے ایک جیسے قوانین بنائے جائیں ۔۔
قدرت نے موجود قانون سازوں کو یہ موقع عطا کیا
کہ وہ عوامی مفادات کے قوانین بناکر تاریخ میں امر ہو جائیں اور یہ سب کچھ اب ان کے
ہاتھ پر ہے کہ وہ اس اہم تاریخی ریفارمز کو کس طرح دیکھتے ہیں، تاریخ میں امر ہوتے
ہیں یا ایک بار پھر بربادی کا باعث بنتے ہیں۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ کے مصداق ہمیں
اچھے کی امید رکھنی چاہئے مگر ماضی کے تلخ تجربات کچھ اور کہتے ہیں۔
تحریر: جی ایم ایڈووکیٹ
Comments
Post a Comment