Independence of Gilgit Baltistan.. Special addition

 

یادگارشہدا گلگت بلتستان

یوم آزادی گلگت بلتستان، خصوصی مضمون

تحریر: راحت علی شاہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گلگت بلتستان کشمیرکاحصہ نہیں، یکم نومبرکومہاراجہ کشمیرسےآزادی حاصل کرچکاہے، اس کا ذکرآئین میں موجود ہے،اسے پانچواں صوبہ بناکرپارلیمنٹ میں نمایندگی دی جائے

گلگت بلتستان کشمیرکاحصہ ہے، جب تک مسئلہ کشمیرحل نہیں ہوتااسےآزادکشمیرمیں ضم کرکےوہاں کی پارلیمنٹ میں نمایندگی دی جائے۔

گلگت بلتستان پاکستان کاحصہ ہےنہ کشمیرکا، جب تک مسئلہ کشمیرحل نہیں ہوتا گلگت بلتستان کوخودمختارحیثیت دےکراختیارات مقامی آبادی کومنتقل کیےجائیں۔ غیرمقامی بیوروکریسی کونکال دیاجائے۔

گلگت بلتستان پاکستان کاحصہ نہیں، اس کافیصلہ رائےشماری کےذریعےہوناہے،حکومت کےیک طرفہ فیصلےسےمسےاقوام متحدہ میں پاکستان کا کیس کمزورہوگا۔

-------------------------------------------------------------------------------------------------------

اٹھائیس ہزارمربع میل پرپھیلی گلگت بلتستان کی 30 لاکھ سےزائدآبادی گزشتہ 72 سالوں سےان نعروں اورمطالبات کےبیج جس الجھن کاشکار تھی اس کا ڈراپ سین جنوری 2019 میں سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ آنےکےبعد ہوگیا۔ عدالت عظمی نےپہلی مرتبہ واضح فیصلہ دیا کہ گلگت بلتستان کےمستقبل کا تعین نہ پاکستانی پارلیمنٹ کرسکتی ہےنہ ہی اعلیٰ عدلیہ۔ جوبھی فیصلہ ہوناہے اقوام متحدہ کےتحت رائےشماری کےذریعےمقامی آبادی کوخود کرنا ہے، جب تک یہ وقت نہیں آتا حکومت وہاں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کویقینی بنائے۔

اعلیٰ عدلیہ کےاس فیصلےکی بنیاد اقوام متحدہ کی وہ قراردادیں ہیں جو 1948 کے بعد وقتا فوقتا منظورہوئیں اورجن پرپاکستان بطورفریق زیردستخطی ہے۔ ان میں واضح طورپرکہاگیا ہے کہ چونکہ معاملہ اقوام متحدہ میں ہے، خطےکا کوئی یونٹ یا فریق ممالک ایسی کوئی قانون سازی نہیں کرسکتےجوخطےکےمستقبل کےتعین پرمنتج ہو، ایسے کسی بھی یک طرفہ فیصلےکوسلامتی کونسل کی قراردادوں سے انحراف سمجھا جائےگا۔

واضح رہےکہ سلامتی کونسل کی یہ قراردادیں گلگت بلتستان، آزادکشمیراورمقبوضہ کشمیرپریکساں طورپرلاگو ہوتی ہیں۔ لیکن عارضی انتظام کےتحت آخرالذکر دونوں متنازعہ علاقوں کےشہریوں کووہ تمام حقوق حاصل ہیں جوانسان کا پیدائشی حق ہے۔ آزادکشمیرکی مثال لیجیے، وہاں باقاعدہ ایک حکومت قائم ہے،ان کااپنا صدر، وزیراعظم، سپریم کورٹ اوردیگرتمام حکومتی ادارےقائم ہیں، ان کےنمایندے سرکاری سطح پرعالمی فورمز پرنہ صرف اپنےخطےبلکہ وفاق کی نمایندگی بھی کرتےہیں۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیرکو دیکھاجائےتووہاں کی صورتحال بھی آزادکشمیرسےزیادہ مختلف نہیں ہے، بھارت مقبوضہ کشمیرکو متنازع تسلیم کرتاہےلیکن مہاراجہ کشمیرکےالحاق کےبعد خطےکوباقاعدہ صوبےکی جوحیثیت دی گئی تھی وہ کسی حد تک برقرار ہے، تاہم 5 اگست 2019 کو مودی سرکار نے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کو ختم کرکے اسےبراہ راست بھارتی وزیرداخلہ کے نگرانی میں دیا۔ اس فیصلے کو بھارتی سپریم کورٹ اسے غیرقانونی قرار دے چکی ہے۔بھارتی حکومت بھی عدالت میں کہہ چکی ہے یہ عارضی انتظام ہےجسے جلد ختم کرکے پرانی حیثیت بحال کی جائےگی۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارت فوج کوجولامحدود اختیارات دیےگئےہیں وہ بےنقاب بھی ہورہےہیں۔ بھارت کےعالمی اثرورسوخ کےباوجودکشمیرمیں اس کےمظالم کی داستانیں لمحہ بہ لمحہ دنیاکے کونےکونےمیں پہنچ رہی ہیں۔ 

اس کے برعکس گلگت بلتستان دنیا کی نظروں سےاوجھل ہے۔ وہاں بنیادی انسانی حقوق سلب ہیں۔ گزشتہ 72 سالوں سےخطے کوعارضی پیکجزکےتحت چلایا جارہاہے۔ حتمی فیصلےتک خودمختاری کا مطالبہ غداری قرار پانےکےبعد عوام کےپاس ایک ہی مطالبہ رہ جاتا ہےکہ خطےکوصوبےکی حیثیت دے کرپارلیمنٹ میں نمایندگی دی جائے، اس پردوٹوک جواب ملتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں اس کی اجازت نہیں دیتیں۔عالمی فورمزپرنمایندگی تو دور کی بات ہے،یہاں کےدوسرےدرجے کے شہریوں کواس قابل بھی نہیں سمجھاجاتا کہ انہیں مقامی سطح پرانتظامی عہدوں پرتعینات کیاجائے۔ 28 ہزارمربع میل رقبے پرآباد 20 لاکھ سےزائد لوگ کس کرب سےگزررہےہیں، کوئی جانتا بھی نہیں۔ اس کی وجوہات بھی معقول ہیں جنہیں سمجھنےکےلیےتاریخ کی چند کڑیوں کو ملانا ضروری ہے۔

تقسیم ہند سےقبل جموں کشمیرکاشمار ان ریاستوں میں ہوتاتھا جہاں مہاراجوں کےتحت شاہی ریاستیں قائم تھیں۔ برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نےہندوستان سےنکلنےکےجواعلان کیاتھا ،3 جون 1947 کےمنصوبے،انڈیا آزادی ایکٹ اور پھرلکیر کھینچنےتک اس میں کئی داو پیچ آئےلیکن شاہی ریاستوں سےمتعلق گائیڈ لائن ایک ہی تھی کہ انہیں ہندوستان یاپاکستان میں کسی کےساتھ بھی رہنےکاحق حاصل ہوگا۔

تقسیم ہند سےمحض دوہفتے پہلے،یکم اگست 1947 کوبرطانیہ نےریاست جموں وکشمیرمہاراجہ ہری سنگھ کوواپس کردی جو11 سال قبل ہی ساٹھ سال کےلیےپٹےپرلےرکھی تھی۔ مہاراجہ نےریاست کوانتظامی لحاظ سےتین صوبوں (گلگت بلتستان لداخ، جموں، وادی کشمیر)میں تقسیم کیا۔ اپنی فوج میں میجربراون سمیت برٹش آرمی کےدواعلیٰ افسران کی خدمات بھی برقراررکھیں۔

12 ستمبر1947 کووزیراعظم لیاقت علی خان نےفوجی اورشہری حکام کےساتھ ملاقات کی جس میں مبینہ طورپردومختلف منصوبوں پرعمل درآمد کی منظوری دی گئی، اس میں کشمیر پرشمال سےحملہ کرنےکےلیےقبائلی فورس کی تیاری اور پونچھ میں باغیوں کو مسلح کرناشامل تھا۔ چوہدری رحمت علی نےاپنی کتاب میں لکھاہے قائداعظم محمدعلی جناح کو اس منصوبےسےمکمل لاعلم رکھاگیا تھا۔

22 اکتوبر1947 کوقبائلی لشکرمظفرآبادمیں داخل ہوا ،وہاں ڈوگرا فوج کوپسپا کرنےکےبعد اگلے دو دنوں کےدوران بارہ مولا کی طرف پیش قدمی کی، کچھ جنگجوسری نگرکےمضافات تک پہنچ گئے۔ لشکرنے قتل عام، خواتین کی عصمت دری اورلوٹ مارکی ان گنت داستانیں بھی چھوڑیں۔

24 اکتوبر 1947 کوپونچھ میں سردار ابراہیم نےآزادجموں وکشمیرکی حکومت بنانےکااعلان کیا اور خود کواس کا سراہ مقررکردیا۔

26 اکتوبرکومہاراجہ ہری سنگھ نےبھارت سےالحاق کرلیا جس کےبعد 27 اکتوبرکوبھارت نےاپنی فوج کشمیرمیں اتاردی۔

ادھرگلگت میں مہاراجہ ہری سنگھ کی فوج نےبغاوت کردی۔ 31 اکتوبرکی رات ریزیڈنسی کامحاصرہ کیاگیا۔ یکم نومبرکی صبح گورنرگھنسارا سنگھ کوگرفتارکیاگیا۔ دودن کی افراتفری اورغیریقینی صورتحال کےبعد 3 نومبرکوپاکستانی پرچم کوسلامی کی تقریب ہوئی جس میں کرنل عبدالماجدخان اورصوبیدارمیجربابرخان نےایک ٹیلی گرام میجربراون کےسامنےپیش کیاجس میں لکھا گیاتھا کہ گلگت کوحکومت گلگت کےسپرد کردیاگیاہے۔ صدرشاہ رئیس خان کی قیادت میں عبوری حکومت تشکیل دی گئی، کرنل مرزاحسن خان کو انقلابی کونسل کاسربراہ اور کرنل غلام حیدرکوکشمنرمقررکردیا گیا۔ یہ انتظام محض 15دن قائم رہا۔ 16 نومبرکو وفاق کا بھیجا گیا نمایندہ تحصیلدارسردارعالم گلگت پہنچا اورعنان حکومت اپنےہاتھ میں لےلیا۔ اس کےبعد نوآزادریاست گلگت کےصددراورانقلابی کونسل کےسربراہ کےساتھ کس قسم کا سلوک روارکھا گیا یہ بھی علیحدہ موضوع ہے۔ مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں جانےکےباوجودجنگ کا سلسلہ جاری رہا اور گلگت اسکاوٹس نےبلتستان کوبھی لداخ سےآزادکرالیا۔ اس مہم جوئی کےنتیجےمیں ڈوگروں سےآزادکرائےگئےعلاقوں کی وحدت بکھرچکی تھی، سردارابراہیم نے28 اپریل 1949 کوپاکستان کےساتھ ایک معاہدہ کرکےاس پرمہرتصدیق ثبت کردی جسےمعاہدہ کراچی کےنام سےیاد کیاجاتاہے۔

یکم جنوری 1948 کوبھارت اقوام متحدہ میں گیا، ایک ہفتےبعدپاکستان نےبھی اقوام متحدہ میں درخواست دارکردی۔

20 جنوری 1948 کوسلامتی کونسل نےقرارداد 39 کےذریعے اقوام متحدہ کاکمیشن برائےانڈیاو پاکستان (یواین سی آئی پی) قائم کیا۔جس کو دونوں ممالک کےالزامات کی تحقیقات کرکےثالثی میں معاونت کی ذمےداری سونپی گئی۔

21 اپریل 1948 کوقراردادنمبر 47 کےذریعےکمیشن کےمینڈیٹ میں اضافہ کرکے شفاف وغیرجانبدار رائےشماری کےذریعےریاست کشمیرکےمستقبل کےتعلق میں معاونت کی ذمےداری بھی دےدی گئی۔ اس قرارداد میں پاکستان یا بھارت کےساتھ الحاق کےعلاوہ تیسرا کوئی آپشن شامل نہیں کیاگیا۔ قرارداد میں سفارش کی گئی کہ پاکستان کشمیرسےقبائلی لشکراورفائٹرز کوواپس بلائے۔بھارت بھی اپنی فوج کی تعدادکم کرے۔

جولائی 1949 کوجنگ بندی کی لکیرکھینچی گئی جس کی نگرانی کےلیےاقوام متحدہ کےفوجی مبصرمقررکیےگئے۔

1951 میں یواین سی آئی پی کوختم کرکےیونائیٹڈ نیشنزملٹری آبزرورگروپ (یواین ایم اوجی آئی پی) قائم کیاگیا۔

1952 میں منظورکی گئی قرارداد نمبر98 کےتحت سیزفائرلائن کےساتھ پاکستان کو تین ہزارسے 6 ہزار جبکہ بھارت کو 12 ہزارسے18 ہزارتک فوجی تعینات کرنےکی اجازت دی گئی۔

سیزفائرکےذریعےریاست جموں وکشمیرعارضی مگرعملا باضابطہ طورپر دوحصوں میں تقسیم ہوگئی۔ موجودہ آزادکشمیروگلگت بلتستان پاکستان کےکنٹرول میں آگئے۔ مسلم اکثریتی وادی کشمیر، ہندواکثریتی جموں اورمسلم بدھسٹ اکثریتی لداخ بھارت کےزیرانتظام دیےگئے۔ ریاست کشمیرکےکچھ حصوں پر چین نےبھی قبضہ کرلیا۔ شمال مشرق بھارت میں واقعہ اقصائے چن پر چین نے1962 میں بھارت کےساتھ مختصر جنگ کے نتیجےمیں قبضہ کیا جبکہ ہنزہ سےمتصل شکسغم کا علاقہ 1963 میں پاک چین سرحدی انتظام سےمتعلق معاہدے کےتحت چین کودیاگیا۔

پاکستان اوربھارت کاسوال 1957 تک سلامتی کونسل کےایجنڈےپرموجودرہا۔ اس دوران کئی قراردادیں منظورہوئیں مگرنہ رائےشماری ہوسکی اورنہ ہی فورسز واپس بلانےکےمطالبےپرعمل ددرآمدہوسکا۔ آل جموں وکشمیرمسلم کانفرنس کی سفارش پرقانون اسمبلی کی تشکیل کومدنظررکھتےہوئےسلامتی کونسل نے 1957 میں قرارداد نمبر 122 منظورکی جس میں کہاگیا ہے کہ اس اسمبلی نےپورےجموں وکشمیر اسٹیٹ یا اس کےکسی حصے کےمستقبل یا الحاق یا اس حوالےسےکوئی بھی اقدام کیا یا کسی فریق ملک نےاس کی حمایت میں کوئی اقدام کیا تواسے بنیادی اصولوں کےخلاف سمجھاجائےگا۔

سیزفائرکی خلاف ورزیوں کی نتیجےمیں 1965 میں دوبارہ جنگ چھڑگئی۔ دسمبر1971 میں ایک اورخونریز جنگ کےبعد سیزفائرلائن کولائن آف کنٹرول کی شکل دی گئی۔

1972 میں شملہ معاہدےکےتحت دونوں ممالک نےتمام حل طلب مسائل باہمی مذاکرات کےذریعےحل کرنےپراتفاق کیا۔ بھارت کا دعویٰ ہےکہ شملہ معاہدےکےبعدسلامتی کونسل کی تمام گزشتہ قراردادیں ختم ہوچکی ہیں۔ جبکہ پاکستان اب بھی ان قراردادوں پرعمل کرنےکےموقف پرقائم ہے۔ اقوام متحدہ کےسیکریٹری جنرل کاموقف ہے کہ یواین ایم اوجی آئی پی کو ختم کرنےکافیصلہ سلامتی کونسل ہی کرسکتی ہے۔ جب تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوتا اقوام متحدہ کے مبصرگروپ کاکام جاری رہےگا۔

1990 میں بھارت نےمسلح گروپوں کابہانہ بناکرمقبوضہ کشمیرمیں فوج اتاری جن کی تعداد 5 لاکھ سے7 لاکھ کےدرمیان بتائی جاتی ہےجواب بڑھ کر12 لاکھ سےتجاوزکرگئی ہے۔ دوسری جانب دیکھاجائےتو آزادکشمیراورگلگت بلتستان میں کسی مسلح تحریک وجود نہیں رکھتی لیکن اسٹریٹیجک اہمیت کےباعث بھاری فوج اورپیراملٹری فورسز تعینات ہیں اورانٹیلی جنس کاجال چپےچپےتک پھیلاہواہے۔

اورسب سےبڑھ کریہ کہ تقسیم ہند کی جو داستان بیان کی جاتی ہے اس سےیہاں کی سرزمین اوراس کےمکین یکسرغائب ہیں۔ آزادی کی قیمت کا تخمینہ لگاتےہوئےسابقہ شاہی ریاست کے 2 کروڑ مکینوں کےمسلسل اضطراب اورمحرومیوں کا ذکرہر بارکیوں رہ جاتاہے؟ یہ لمحہ فکریہ بھی ہے اور اس کی معقول وجوہات بھی ہیں جن میں غیرمنظم سیاسی جدوجہد، حقیقت سےمبرا مطالبات اوروفاق کا مبہم موقف شامل ہیں۔

مقبوضہ کشمیرمیں صوبےاورپارلیمنٹ میں نمایندگی کےباوجود بھارت سےآزادی کی جدوجہدجاری ہے،اس کےبرعکس گلگت بلتستان میں آج تک جتنی بھی تحریکیں پیدا ہوئیں، وقت گزرنےکےساتھ ساتھ یاتو خود ہی منظرسےغائب ہوگئیں یاپھر پوری طرح سانس لینےکےقابل ہونےسے پہلے کچل دی گئیں۔ گلگت لیگ سےلےکر موجودہ بالاورستان نیشنل فرنٹ تک اس کی مثالیں جابجا ملتی ہیں۔

جنگ آزادی کے ہیروکرنل حسن 1957 میں گلگت لیگ قائم کی تھی جس پرایک سال بعد 1958 میں پابندی لگادی گئی اور کرنل حسن نے آزادکشمیرسول سروس جوائن کرلی۔

ساٹھ کی دہائی میں گلگت بلتستان جمہوری محازکا قیام عمل میں آیا۔ اسی تنظیم کی جدوجہدکا نتیجہ تھاکہ آزادکشمیراسمبلی نےگلگت بلتستان کوشامل کرنےکی قرارداد منظورکی۔ 1973 کےبعد یہ تنظیم غیرفعال ہوگئی۔

ساٹھ کی دہائی کےآواخرمیں تنظیم ملت کا قیام عمل آیا۔ سترکےاوائل میں گلگت میں ایک اسکول کی ہیڈ مسٹریس کی برطرفی کےنتیجےمیں پیدا صورتحال کےدوران تنظیم ملت نےجو فعال کردارادا کیا اس کےنتیجےمیں قائدجوہرعلی، شیرولی ایڈووکیٹ سمیت تنظیم کے15 سرکردہ رہنماوں کوجیل بھیج دیاگیا۔ مظاہرین نےجیل توڑکرقائدین کو آزادکرایا لیکن دوبارہ گرفتارکرکےہری پورجیل منتقل کیاگیا۔ 1972 میں ذوالفقارعلی بھٹو کی جانب سےعام معافی کےاعلان کےبعد ہی ان اسیران کورہائی مل سکی جس کےبعد تنظیم ملت پیپلزپارٹی میں ضم ہوگئی۔

1973 میں کراچی میں مقیم گلگت بلتستان کےطلبا نے گلگت بلتستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔ 1976 کےبعد یہ بھی غیرفعال ہوگئی۔

سن اسی کی دہائی میں قراقرم نیشنل موومنٹ کا قیام عمل میں آیا، اس تنظیم کوطلبا اورنوجوانوں میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی لیکن 2003 میں تنظیم کےچیرمین مظفرریلےنے اچانک مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیارکرلی اور مشرف دور کےانتظامی سیٹ اپ میں مقامی وزیربن بیٹھے۔

نوےکی دہائی میں بالاورستان نیشنل فرنٹ قائم ہوئی جس نےپہلی مرتبہ آزادی کا نعرہ لگایا۔ یقینا یہ پوزیشن اقوام متحدہ کی قراردادوں سےتجاوزتھا تاہم بہت حد تک عوامی توجہ حاصل کرنےمیں کامیاب رہی۔ انہوں نےدیگرتنظیموں سےمل کر1997 میں بلیک جوبلی منائی جس پرتنظیم کے رہنماوں کوقیدبند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑی۔ 1999 میں اس کےایک فعال رہنما بیرون ملک چلےگئےجہاں سےخودساختہ چیرمین کاکرداراداکرنے پرپارٹی قیادت میں پھوٹ پڑگئی جو2005 میں باقاعدہ دودھڑوں میں تقسیم ہوگئی،ایک دھڑےکی قیادت نوازخان ناجی نےاوردوسرے کی قیادت عبدالحمیدخان نےسنبھال لی۔ رکن اسمبلی بننےکےبعد نوازخان ناجی کےموقف میں نرمی کےآثار بھی نمایاں ہوگئے،تین سال بعدعبدالحمید کےبارےمیں بھی اطلاعات آرہی ہیں کہ وہ وفاقی دارالحکومت کےایک گیسٹ ہاوس میں بطورسرکاری مہمان براجماں ہوچکےہیں۔

گلگت بلتستان میں دیگرکئی مقامی تنظمیں بھی موجودہیں لیکن ان کی کوئی فعالیت نظرنہیں آرہی۔ بلتستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن جوکسی زمانےمیں بہت مقبول جماعت تھی،بھی منظرسےغائب ہے،تاہم اس پلیٹ فارم سےمنظرپرآنےوالےغلام شہزادآغا اورمنظورپروانہ نےاپنی موجودگی کا احساس زندہ رکھا ہواہے۔

مقامی تنظیموں کی ناکامی کےاسباب میں کڑی نگرانی کےعلاوہ بھی کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں پارلیمانی سیاست میں عدم دلچسپی شامل ہے۔ مگریہ بھی حقیقت ہےکہ انتخابی سیاست کےلیےغیرمعمولی وسائل کےساتھ ساتھ بلند بانگ وعدوں اورپھر ان وعدہ سےپھرنےکا فن بھی آنا چاہیے جوان تنظیموں کےبس کی بات نہیں۔ گلگت بلتستان قانون سازاسمبلی کےآج تک جتنےبھی انتخابات ہوئےہیں ان میں ہمیشہ وہی پارٹی جیت کرحکومت بناتی ہےجس کی وفاق میں حکومت ہو۔ وجہ صاف ظاہرہے، اس پارٹی کے امیدواراوران کی انتخابی مہم میں رنگ ڈالنےاسلام آباد سے آنےوالےلوگ اعلانات کرتےہیں کہ وہ ترقیاتی کاموں کےجال بچھائیں گےہی، ساتھ ہی اس بار خطےکوپانچواں صوبہ بناکرہی دم لیں گے۔ الیکشن جیتنےکےبعدوعدوں سےپھرنےکےفن کاعملی مظاہرہ اپنی جگہ مگرسوال یہ ہےکہ صوبےکےوعدے پرانہیں پذیرائی کیوں ملتی ہے؟ یہ بھی اہم سوال ہے۔

اس کی پہلی وجہ یہ ہے خطےکی 99 فیصد آبادی مقامی تاریخ سےناواقف ہے، تعلیمی نصاب میں جوتاریخ پڑھائی جاتی ہےاس کا فوکس علاقائی تاریخ سےآگاہی کےبجائے توجہ ہٹانےاورغیرمتعلقہ معاملات میں الجھانےپرمبنی ہے۔ نصاب سے بنیادی تنازع کونکالنےکا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ جب لوگ غیرحقیقی نعروں پریقین کرنےلگتےہیں تووہ غیرارادی طورپران عناصرکےہتھےچڑھ جاتےہیں جن کی ترجیحات ہی زیادہ سےزیادہ مال بنانا ہوتاہے۔

دوئم، تنازع سےمتعلق غیرواضح حکومتی پالیسی اورمبہم عدالتی فیصلےبھی بھی وجوہات میں شامل ہیں۔

جنرل ضیا الحق نےجب 1977 میں مارشل لا نافذ کیا تو گلگت بلتستان کو بھی مارشل لا زون ای قراردیا تھا اورگلگت بلتستان کےتین نمایندوں کو شوریٰ میں بطور مبصرشامل کیاتھا۔ ان نمایندوں کو ابھی شوری کے ایک ہی اجلاس میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی تھی کہ کشمیریوں کےشدید ردعمل کےباعث حکومت کوپیچھےہٹنا پڑا۔ جنرل ضیا نے گلگت بلتستان کےمستقبل کےتعین کےلیے 1984 میں ایک اعلیٰ سطح کمیٹی بھی بنائی تھی، جس کی رپورٹ آج تک منظرعام پرنہیں آسکی۔

اسی طرح  سپریم کورٹ کے1999 کےفیصلےکی مثال لےلیں۔ حبیب وہاب الخیری کی پٹیشن پرعدالت نےحکم دیاتھا کہ حکومت پارلیمنٹ کےذریعےآئین میں ترمیم کرکےگلگت بلتستان میں بنیادی انسانی حقوق کا حصول یقینی بنائے۔ جب فیصلےپرعمل درآمد کا وقت آیا تومشرف دور کےوزیرامورکشمیرمجید ملک کی سفارشات پرآئینی اصلاحات کےبجائےانتظامی اصلاحات پرمبنی پیکج ہی پیش کیاگیا۔ بعدمیں آنےوالی پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن کی حکومتوں نےبھی اسی سلسلےکوجاری رکھا۔

یہ پہلا موقع ہے کہ سپریم کورٹ نےایک واضح فیصلہ سناکران غیرحقیقی نعروں اور وعدوں کا دروازہ ہمیشہ کےلیےبند کردیا ہے۔ گزشتہ سال جب عدالت میں 34 درخواستوں پر سماعت جاری تھی تو پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نےسبقت لےجانےکی کوشش میں مبینہ طورجوسفارشات تیارکی تھیں۔ سپریم کورٹ نے یہ سفارشات منگوائی بھی تھیں لیکن اٹارنی جنرل انورمنصورخان  نےکمال مہارت سےمعاملہ ایسےگھول مول کردیاکہ دوبارہ اس پرکوئی بات نہ ہوسکی۔ یوں سمجھیں کہ کیس کی سماعت کےدوران کوئی بھی حکومتی اقدام عدالت پراثرانداز ہونےکےمترادف سمجھاجاتا۔ رواں سال جنوری میں کیس کا تحریری فیصلہ جاری کیاگیا۔اچھا ہوتا کہ فیصلےکےبعدآیندہ سیٹ اپ کےلیےکم ازکم مشاورت کی حدتک ہی سرگرمی دکھائی جاتی۔ مگرروایات کےعین مطابق وفاق نےمکمل خاموشی اختیارکررکھی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ خطےکو مقبوضہ کشمیرکی طرح باقاعدہ صوبہ بنانے اورپارلیمنٹ میں نمایندگی دینےکے لیےآئین میں ترمیم ضروری ہے۔ مگروفاقی حکومت سےایسی کوئی امید رکھنا حماقت ہوگی تاہم  پارلیمنٹ کےمعاملات  میں الجھےبغیربھی بہت حد تک مسئلےکاعارضی بنیادوں پرحل نکالا جاسکتا۔ جہاں تک آزادکشمیرطرزکےانتظام کا تعلق ہے وہاں صدر،وزیراعظم اور تمام ادارے ہونےکےباوجود اختیارات کےمالک آزادکشمیرکونسل کےسربراہ کی حیثیت سے وزیراعظم پاکستان ہیں جوچیف سیکریٹری کےذریعےاحکامات پرعمل درآمدکراتےہیں۔ فورس کمانڈرکی قیادت میں فوج کا متوازی حکمرانی اس کےعلاوہ ہے۔  آزادکشمیرکی منتخب حکومت کےلیےکرنےکوکچھ بچتا ہی نہیں مسوائےخوش آمد کے۔ ان تمام خامیوں کےباوجود بھی اگرکسی حلقےسےآزادکشمیر طرزکےسیٹ اپ کا مطالبہ آرہاہے تو وفاق کو اس پرپھرتی دکھانی چاہیے۔ اس کےلیےاعلیٰ عدالت کےفیصلےمیں بھی واضح حکم موجود ہے۔ حکومت کی خاموشی برقرار رہی توپھراس موقعےکوبھی ضائع کرنےکےمترادف ہوگا جس کا نتیجہ زیادہ موثرسیاسی تحریک کےلیےجوازپیدا کرسکتاہے۔

Comments