Gilgit-Baltistan Govt Cars To Bear “Purchased By Public Fund”


 

یہ گاڑی گلگت بلتستان کے ٹیکس گزاروں کی ملکیت ہے

گلگت بلتستان سرکاری گاڑیوں پر عوامی ملکیت کا لوگو لگےگا

لوگو لگانےسےکچھ نہیں ہوگا،گاڑیاں واپس لی جائیں،شہری

گلگت بلتستان میں سرکاری گاڑیوں پر لوگو لگے گا جس سے گاڑیوں کا غیر ضروری استعمال کم کرنے میں مدد ملے گی۔

چیف سیکرٹری کے دفتر سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق سرکاری گاڑیوں پر لگائے جانے والے لوگو میں اردو اور انگریزی زبان میں واضح انداز میں لکھا جائےگا کہ یہ گاڑی گلگت بلتستان کے ٹیکس گزاروں کی ملکیت ہے۔نوٹی فکیشن کے مطابق یہ اقدام سرکاری گاڑیوں کا غیر ضروری استعمال کم کرنے کےلیےاٹھایاگیاہے۔

واضح رہےکہ گلگت بلتستان اسمبلی میں رواں ہفتے سرکاری  افسران کی زیراستعمال گاڑیاں زیربحث آئی تھیں۔ وزیر داخلہ شمس لون نے مطالبہ کیا تھا کہ سرکاری افسران  سے 4000 سی سی گاڑیاں واپس لی جائیں۔ اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن اراکین نے ان کی تائید کی تھی جس کےبعد اسپیکر نے وزیر ایکسائز و ٹیکسیشن کو ہدایت کی تھی کہ سرکاری گاڑیوں کی تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے۔


جمعرات کو جو رپورٹ پیش کی گئی اس میں گلگت بلتستان میں سرکاری گاڑیوں کی مجموعی تعداد 4165 بتائی گئی ہے۔ یہ گاڑیاں سرکاری افسران اور اراکین اسمبلی، مشیروں، معاونین خصوصی کے زیر استعمال ہیں۔ایک ایک سرکاری افسر اور رکن اسمبلی کو دو دو، تین تین، چار چار لکژری گاڑیاں دی گئیں ہیں، ان کے ساتھ سرکاری ڈرائیور اور پٹرول بھی دیا جارہاہے۔ ایک گاڑی افسر کے دفتر آنےجانے، دوسری ان کے بچوں کو اسکول لےجانے،  تیسری  بیوی کو شاپنگ پر لے جانے اور چوتھی گھر کا سودا سلف لانے کےلیے استعمال کی جاتی ہے۔ وہ ان گاڑیوں کو رشتےداروں کی شادیوں اور مہمانوں کو سیر سپاٹے کرانےکےلیے بھی استعمال کررہےہیں۔ ان کے گاڑیوں کے ڈرائیور بھی سرکاری اور پٹرول بھی مفت فراہم کیا جاتاہے۔ 

رپورٹ پیش ہونے کے چند گھنٹے بعد چیف سیکرٹری کے دفتر نے نوٹی فکیشن جاری کیا کہ سرکاری گاڑیوں پر لوگو لگایا جائےگا تاکہ ان کا غیر ضروری نہیں کیا جاسکے۔

شہریوں نے چیف سیکرٹری کے  ایک نوٹی فکیشن کو ڈرامہ قرار دے کر تمام سرکاری افسران اور اراکین اسمبلی سے ایک سے زائد گاڑیاں واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔



شہریوں کا کہنا ہے کہ  لوگو لگانے سے کوئی فرق نہیں پڑےگا۔ جس کے پاس جتنی گاڑیاں ہیں وہ اس کے استعمال میں ہی رہیں گی، فیول اور ڈرائیور کی تنخواہ بھی سرکاری خزانے سے جاتی رہے گی۔ بجٹ بچانا ہے تو سرکاری افسران اور اراکین اسمبلی سے ایک سے زائد گاڑیاں واپس لینی پڑیں گی۔ 

ایک شہری نے کہا کہ اتنی اخلاقی جرات نہ سرکاری افسران میں ہے نہ ہی اراکین اسمبلی  میں  کہ وہ سرکاری گاڑیاں واپس کریں۔ امکان یہ ہےکہ چیف سیکریٹری کے نوٹی فکیشن کو احسن اقدام قرار دے کر معاملہ گول کردیا جائے گا تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔


Comments