نگر اور صحت


نگر قدرتی حسن سے مالامال ہے۔ یہاں کے خوبصورت مقامات دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں لیکن ان دونوں نگر کے نوجوانوں تعلیم اور صحت جیسے بنیادی انسانی حقوق کو لےکر سڑکوں پر ہیں۔ آج ہم صحت کے مسائل پر بات کریں گے کہ آخر نگر میں صحت کی اتنے گھمبیر صورتحال کیسے پیدا ہوئی اور اس کا حل کیسے ممکن ہے۔

 سب سے پہلے نگر میں موجود اسپتالوں اور صحت کے مراکز کا جائزہ لیں گے اور سرکاری اعدادو شمار پر ہی بات کریں گے۔

ضلع نگر میں اس وقت دو 30 بیڈ اسپتال ہیں، ایک حلقہ 5 نگر خاص اور ایک حلقہ 4 سکندر آباد میں۔ نگر خاص کے اسپتال میں کل 149 آسامیاں ہیں جن میں ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل اسٹاف سمیت گریڈ 1 تک کے ملازمین شامل ہیں لیکن سرکاری کاغذات اور زمینی حقائق میں بہت بڑا تضاد ہے۔ 30 بیڈ اسپتال کے لئے 149 ملازمین کی ضرورت ہے جبکہ سرکار نے اب تک صرف 53 آسامیوں پر ملازمین بھرتی کیےہوئےہیں، اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کیا ہم 53 ملازمین سے دن رات بھی کام لیں تو بھی 96 ملازمین کی کمی کو پوری کیسے کر سکتے ہیں۔ اس سے بھی سنگین صورتحال 30 بیڈ سکندر آباد اسپتال کی ہے جہاں کل آسامیاں 149 ہیں اور بھرتی ملازمین کی تعداد صرف 27 ہے جبکہ اس اسپتال میں ہنزہ نگر سمیت شاہراہ قراقرم پر ہونے والے تمام حادثات کے زخمی اور مریضوں کو فوری یہاں منتقل کیا جاتا ہے لیکن یہاں کے صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ ان حالات میں کیسے 27 ملازمین 122 ملازمین کی کمی پوری کر سکتے ہیں، افسوس علاقے کے عوامی نمائندے غفلت کے نیند سو رہےہیں۔

 نگر کے مصائب ابھی ختم نہیں ہوئے،اسکرداس 10 بیڈ اسپتال کےلئے 39 ملازمین بھرتی ہونے تھے لیکن ابھی تک کسی ایک کو بھی بھرتی نہیں کیا گیا، میاچھر میں موجود ضلع نگر کی واحد مادر اینڈ چائلڈ اسپتال، جس کو چلانے کے لئے سرکاری کاغذ میں 7 ملازمین کی ضرورت ہے، کسی ایک کو بھی بھرتی نہیں کیا جاسکا۔

اس کےعلاوہ ڈاڈیمل نگر اور سونی کوٹ چھلت نگر کے فرسٹ ایڈ سینٹرز کی عمارتیں تو تعمیر ہوئیں لیکن 7 میں سے کسی ایک ملازم کو بھرتی نہیں کیا گیا، یہ صرف چند علاقوں کی تفصیلات ہیں، دیگرعلاقوں میں اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔

نگر کے مصائب بہت زیادہ ہیں جن کو ایک کالم میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے، یہاں کے عوام اکیسویں صدی میں بھی صحت جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہیں، سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے گزشتہ 30 سالوں سے عوام کے درمیان اتنی نفرتیں پیدا کیں کہ جس کےبدولت یہاں بھائی بھائی کا دشمن بن چکا ہے، عوام تقسیم در تقسیم ہیں، سیاسی و مذہبی  لوگ اپنے ذاتی مفادات میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ان کو مشترکہ مفاد کا خیال ہی نہیں لیکن ہم سلام پیش کرتے ہیں نگر کے نوجوانوں کو جوکسی بھی قسم کےسیاسی، مذہبی یا علاقائی تعاصب سے بالاتر ہوکر نگر کے حقوق کے لئے ایک ہونے کی بھرپور کوشش کر رہےہیں اور کسی حد تک اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوچکے ہیں جن میں محکمہ تعلیم، محکمہ صحت کے ملازمین کی نوٹیفکیشن سمیت باب  نگر کے ایشوز کو بہت ہی احسن طریقے سے حل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہےہیں۔

نگر کی ضلعی انتظامیہ خصوصآ ڈپٹی کمشنر نگر جناب ذوالقرنین حیدرخان اور ڈی ایچ او نگر اور ایس پی نگر کی جانب سے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اور تعاون بھی قابل ذکر اور خوش آئند بات ہے۔ گلگت بلتستان خصوصآ نگر میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ نوجوان اور ضلعی انتظامیہ مل کر مسائل کو حل کرنے مصروف ہیں۔

ہماری دعا ہے اللہ تعالی ان تمام لوگوں کو توفیق دے جو خلق خدا کے لئے آسانیاں پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ آمین

تحریر: یاورعباس



Comments