حیدرآباد میں گلگت بلتستان کا ایک اور روشن ستارہ گل ہوگیا

گلگت بلتستان سےتعلق رکھنےوالی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تعلیم کے پیشے سے وابستہ جواں سال بیٹی حیدرآباد میں پراسرار طور پر انتقال کرگئیں۔

پینتیس سالہ آمنہ کا تعلق ضلع غذر کےعلاقے سینگل سےتھا۔ انہوں نے 2011 میں جناح یونیورسٹی کراچی سے ماسٹرز کیاجس کے فوری بعد تعلیمی خدمات فراہم کرنےوالے سماجی ادارے روپانی فاونڈیشن سے منسلک ہوگئی۔ وہ ملازمت کے سلسلےمیں گزشتہ کئی سال سےحیدرآباد میں مقیم تھی اور فاونڈیشن کے زیرانتظام اسکول کو چلاتی تھی۔ حال ہی میں وہ اسکول کی پہلی منزل پر قائم کمرے میں منتقل ہوگئی تھی جہاں قیام کی پہلی رات ان کی پراسرار موت واقع ہوئی۔

پولیس نےابتدائی طورپر کہا تھا کہ منگل 20 اپریل کی صبح انہیں اطلاع ملی کہ دو لڑکیاں ایک فلیٹ میں بےہوش پائی گئی ہیں۔موقع سے دونوں لڑکیوں کو اسپتال منتقل  کرنےکے دوران آمنہ راستے میں دم توڑگئی جبکہ دوسری لڑکی کواسپتال میں ہوش آگیا مگر وہ بات کرنےکےقابل نہیں ہے۔

 پولیس کی ابتدائی رپورٹ میں فوڈ پوئزننگ کا شبہ ظاہرکیاگیا تھا تاہم سول اسپتال حیدرآباد کے ڈاکٹر کاکہنا تھا کہ علامات سے ظاہر ہوتا ہے آمنہ کی موت دل کا دورہ پڑنے سےہوئی ہے،مگرکہانی کافی حد تک پراسراریت سےجڑی نظرآتی ہے۔

آمنہ اس سے قبل مبارک کالونی کےقریب روپانی فاونڈیشن کے زیرانتظام اسکول چلاتی تھی۔ کورونا وبا کےسبب مالی مشکلات کے پیش نظر ادارے نے حال ہی میں اسکول کو پرانی بلڈنگ سے امین آباد کالونی کےایک بنگلے میں شفٹ کردیا تھا۔ بنگلے میں گراونڈ فلور پربچوں کا اسکول ہے جبکہ فرسٹ فلور پر ایک کمرہ خالی پڑا تھا۔

 بنگلےکا لوکیشن ایسا ہے کہ کوئی خاندان یہاں رہائش اختیار نہیں کرسکتا، بنگلوں پرمشتمل امین آباد کالونی میں مذکورہ بنگلہ پچھلےحصے میں واقعہ ہے جس کےقریب واقعہ دیگربنگلوں کے فرنٹ گیٹ دوسری جانب کھلتےہیں۔ یہاں دن کو بھی ایسا سناٹا رہتا ہے کہ ہوسکوت صحرا، رات کو ایسی تاریکی کہ آنکھیں دہائی دیں۔ یہی وجہ تھی کہ بنگلہ پندرہ سال سے خالی پڑا تھا۔

علاقہ مکینوں نے بتایا کہ آخری مرتبہ پندرہ سال پہلےیہاں ایک خاندان آیا تھا، پہلی رات ہی نہ جانے ان کےساتھ کیا ہوا کہ اگلی صبح بوریا بستر گول کر رفو چکر ہوگئے۔ اس سےپہلے جوخاندان رہائش کےلیےآیا تھا پہلی رات ہی ان کے گھر کی تین لڑکیاں پراسرار طور پر انتقال کرگئیں۔

آمنہ حیدرآباد میں اپنی کزن کےساتھ رہتی تھی۔ وہ صبح اسکول جاتی، چھٹی پر کزن گھر جاتی اورویک اینڈ پر کراچی میں اپنی بہن اور دیگر رشتے داروں کےپاس جاتی۔ اسکول نئےلوکیشن پر شفٹ ہونے کےبعد بھی آمنہ کا یہی معمول تھا۔

جمعہ 16 اپریل کو ویک اینڈ پر آمنہ حسب معمول کراچی میں اپنے چچا کےگھر گئی، دو دن قیام کےبعد پیر کے روز واپس حیدر آباد پہنچی تو دفتر میں ایک نئی لڑکی بھی موجود تھی۔ ادارے کی انتظامیہ نے ان سےکہا کہ چونکہ آپ دونوں لڑکیاں ہیں، دونوں مل کر بنگلے کے فرسٹ فلورپرموجود کمرے میں رہائش اختیار کر سکتی ہیں۔آمنہ نےآفر قبول کی۔ 

آمنہ کی ساتھی لڑکی نے اسپتال میں ہوش میں آنے کےبعد بتایا کہ دونوں نے مل کر کمرے کو سیٹ کیا اور پھر کزن سے ملنے ان کےگھر چلی گئیں۔ رات 10 بجے کےقریب نئے رہائش گاہ  کی جانب روانہ ہوئیں۔ راستے میں کھانے کا کچھ سامان خریدا۔ بنگلے میں پہنچ کراپنےہاتھوں سے بریانی پکائی اورکھاکر رات 12 بجے کے قریب دونوں سو گئیں۔ 

لڑکی کےبقول رات ایک بجے کےقریب عجیب آوازوں سے آنکھ کھل گئی تو دیکھا آمنہ کی حالت غیر ہے۔اس نےآمنہ کواٹھانے کی کوشش کی لیکن چونکہ دونوں میں وزن کابہت فرق تھا۔ وہ ان کو ہلا بھی نہ سکی۔ کچھ  ہی دیر میں آمنہ کا رنگ پیلا پڑگیا اورمنہ سےجھاگ نکلنے لگا۔ یہ  صورتحال دیکھ کر وہ ایسے گبھرا گئی کہ بےہوش ہوگئی۔

  صبح نوبجےسےاوپر ہو چکے تھے۔ اسکول کی صفائی کےلیے آئی ماسی گیٹ کھٹکھٹاتی رہی لیکن اندر سےکوئی نہیں آیا۔ صبح دس بجے اسکول عملے کے دیگر افراد بھی پہنچے جن میں ایک شخص دیوار پھلانگ کراندر داخل ہوااور گیٹ کھول دیا۔ ماسی کو اوپر کمرےمیں بھیجھا گیا تو کیا دیکھتی ہے دونوں لڑکیاں بے ہوشی پڑی تھیں۔

کراچی میں مقیم آمنہ کےخاندان کےافراد کا کہنا ہے کہ وہ تقریبا ہر ویک اینڈ پر کراچی آتی تھی۔ اہل خانہ کے مطابق آمنہ کہتی تھی کہ نئے بنگلے میں جن بھوت کےاثرات ہیں۔ کہتی تھی کہ  وہ حیدرآباد سے بہت اکتا چکی ہے اور کوشش کررہی ہے کہ کراچی میں نوکری مل جائے تو جلد یہاں شفٹ ہوجائیں گی۔

لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، آمنہ کو اپنی خواہش پوری کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔

گزستہ رات ان کی میت کراچی پہنچی تو ہر آنکھ اشکبار تھی۔ میت امین آباد میت روم لائی گئی تو اہل خانہ اور رشتے داروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ جہاں سے ان کی میت آبائی گاوں روانہ کردی گئی۔ آمنہ کو غذر کےعلاقے سینگل میں نماز جنازہ کےبعد سپرد خاک کردیا گیا۔

حیدرآباد میں تیسرا واقعہ

حیدرآباد میں اس سے قبل بھی گلگت بلتستان سے تعلق رکھنےوالے دو نوجوان مختلف حادثات کا شکار ہوکر زندگی کی بازی ہار چکےہیں۔ تین سالوں میں اپنی نوعیت کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ 

دو سال قبل حیدرآباد میں گلگت بلتستان سےتعلق رکھنےوالا نوجوان امتیاز حسین ٹریفک حادثےمیں جاں بحق ہوگیا تھا، امتیازحسین راہوکی میں ایک ریسٹورنٹ میں کام  کرتا تھا، ٹنڈوجام میں گھرسےہوٹل جاتے ہوئے راستےمیں کوسٹر الٹ گیا تھا، امتیاز حسین کوسٹر کےنیچے آکر شدید زخمی ہوئےجنہیں کراچی منتقل کیا گیا لیکن  دوران علاج دم توڑ گئےتھے۔

اس واقعےکا مقدمہ  راہوکی تھانےمیں فروری 2019 میں درج کیاگیا تاہم دو سال سے زائد عرصہ گزرنےکےباوجود کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

2018 میں یاسین سے تعلق رکھنےوالےمعروف شاعربشارت شفیع بھی حیدرآباد کےقریب ٹریفک حادثےمیں جاں بحق ہوگئے تھے۔ بشارت شفیع اپنی کار میں کراچی آرہے تھے۔ نوری آباد کے قریب کار الٹ گئی تھی۔

 

 

 

 

 

 

 

Comments