نیپانی کوہ پیماوں نے موسم سرما میں کےٹو سرکرکے تاریخ رقم کردی



 نیپال سےتعلق رکھنےوالے10 کوہ پیماوں نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کےٹو کو موسم سرما میں سر کرکے نئی تاریخ رقم کردی۔

تین مختلف ٹیموں سے تعلق رکھنےوالے دس نیپالی کوہ پیماوں نے جمعہ 15 جنوری کی رات ایک بجے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا جو کہ ہفتےکی شام 5 بجے 8611 میٹر بلندی پر واقعہ کے ٹی کی چوٹی کو سر کرنےکامیاب ہوگئے۔ 

ٹیم کےسربراہ نرمل پرجا نے فیس بک پر اعلان کیا  ہم نے ناممکن کو ممکن بنا دیا، بنی نوع انسان کےلیے تاریخ رقم کردی۔ نیپال کےلیے تاریخ رقم کردیا۔ مقامی وقت کےمطابق شام 5  بجےہم  کےٹو کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ نرمال پرجا کی ٹیم کےعلاوہ منگما گالجےکی قیادت میں اس کی ٹیم اور سیون سمٹ ٹریکس کا سونا نامی کوہ پیما بھی شامل تھا۔ ہمارے لیے یہ خاص لمحہ ہے، پوری ٹیم نے چوٹی سے 10 میٹر نیچے دیگر ساتھیوں کو انتظار کیا۔ ہم ایک ساتھ اپنا قومی ترانہ گاتے ہوئےکے ٹو کی چوٹی پر قدم رکھنا چاہتےتھے"۔

رواں موسم سرما میں کےٹو کو سر کرنےکی مہم دسمبرکےوسط سے شروع ہوئی تھی۔  اس سفر میں دنیا بھر سے 58 کوہ پیما شامل تھے جن کو چار مختلف ٹیموں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

پہلی تین رکنی ٹیم کی قیادت نیپانی کوہ پیما منگما گالجےکررہےتھے۔ دوسری ٹیم نرماپرجا کی تھی جس میں 8 کوہ پیما شامل تھے۔ تیسری ٹیم کی قیادت اطالوی کوہ پیما جان سنوری اور محمدعلی سدپارہ مشترکہ طورپرکررہےتھے اس میں سدپارہ کےبیٹے اور مزید تین کوہ پیما شامل تھے۔ چوتھی ٹیم کو سیون سمٹ ٹریکس کا نام دیا گیا تھا۔ اس میں 49 مہم جو شامل تھے جس میں بیس مشہور زمانہ کوہ پیما بھی شامل تھے۔

الپائن کلب کے کرار حیدری کے مطابق اب یہ دس نیپالی کے ٹو پر رسیاں لگائیں گے اور ٹیم کے باقی تمام کے تمام ممبران جن کی تعداد 60 بنتی ہے کے ٹو کو سردیوں میں فتح کرنے کے لیے مدد فراہم کریں گے۔

مشکلات سےبھرپورسفر

موسم سرما میں دنیا کے دوسری بڑی چوٹی کےٹو سر کرنے کی مہم کی قیادت عملا نیپالی کوہ پیماوں نے کی تھی۔ جنوری کےپہلے ہفتےمیں کئی بار موسم خراب ہونےکی وجہ سے کوہ پیماوں کو سخت دشواری کا سامنا رہا۔ سفر شروع ہونےکے بعد میں مشکلات کم نہ ہوئیں۔ کوہ پیماوں کا کیمپ نمبر دو اس وقت تباہ ہوگیا جب برفانی تودہ اور تیز برفانی ہوائیں ٹکرائیں۔ مگر ان بہادروں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنا سفر جاری رکھا۔

اس مشکل ترین سفر میں 14  اور 15  جنوری کو اس وقت امید کی کرن پیدا ہوئی جب کوہ پیماوں کی ٹیم نے سات ہزار میٹر سے زیادہ کی بلندی پر اپنا عارضی کیمپ قائم کیا۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ سردوں میں کوہ پیما سات ہزار میٹر کی بلندی پر پہنچ چکےتھے۔ اس سے قبل کوئی کوہ پیما سردیوں میں اتنی بلندی پر نہیں پہنچ سکا تھا۔

کے ٹو ۔۔۔ جسے سر کرنے میں ایک صدی لگی

قراقرم کے انتہائی شمالی کنارے پر پاکستان اور چین کے سرحدی مقام پر واقع ہے اور درحقیقت اس مقام پر کوئی واضح سرحدی تعین نہ ہونے کی بنا پر پاکستان اور چین کے درمیان کے ۔ ٹو کو ہی سرحد مانا جاتا تھا۔

سکردو سے تقریباً 125 میل دو سو کلومیٹر یا 104 کلومیٹر فضائی سفر کی دوری پر واقع ہے۔ اس کا طول بلد 35.52 اور عرض بلند 76.30 ہے۔

کے ٹو کا راستہ سکردو شہر سے ہوتا ہوا شگر وادی کے اندر سے گزرتا ہے اور آخری گاؤں اشکولی میں سڑک کا اختتام ہوتا ہے جہاں سے پیدل سفرکا آغاز ہوتا ہے۔

یہ سفر بالتورو گلیشیئر پر سے ہوتا ہوا آٹھ سے د س دن میں گوڈون آسٹن گلیشیئر کے کنارے پرواقع کے ٹو پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

کے ٹو کی چوٹی 8611 میٹر کی بلندی کے ساتھ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے جس کو ’سیویج ماؤنٹین‘ کے نام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔

کے ٹو کے نام کی وجہ لفظ ’K‘ قراقرم Karakoram کے پہلے حرف سے لیا گیا ہے اور ٹو کا مطلب ہے قراقرم کی چوٹی نمبر 2۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سب سے پہلے 1856-57 میں اس خطے میں جارج منٹگمری کی سربراہی میں ایک مہم آئی تو انھوں نے ایک اونچی چوٹی کو کے۔ ون (K-1) کا نام دیا جو کہ دراصل بعد میں مشربرم 7821 کے نام سے مشہور ہوئی۔

اس سروے ٹیم کے ممبر ہنری ہاورشم گوڈون آسٹن نے مزید تحقیق میں ایک اور اونچی چوٹی کو کے ٹو کا نام دیا۔

کچھ عرصہ تک ایک انگریز محقق کی وجہ سے اسے امریکی پہاڑ بھی کہا جاتا رہا ہے پھرگوڈون آسٹن کی تحقیق کے بعد اسے گوڈون آسٹن پہاڑ کہا جانے لگا اور سروے مکمل ہونے کے بعد سرکاری طور پر کے ٹو کے نام سے پکارا جانے لگا۔

ایک صدی تک کے ٹو کو سر کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں اور کئی راستوں کو اختیار کیا گیا مگر کامیابی کسی کے حصے میں نہ آئی۔

دسیوں کوہ پیماﺅں نے اپنی جانیں گنوائیں اور اس برفانی دنیا میں برف ہوگئے تاوقتیکہ 1954 کا سال شروع ہوا اور وہ 31 جولائی 1954 کو سنیچر کا دن تھا۔

شام چھ بجے کا وقت تھا جب کے ٹو کی چوٹی پر پہلے انسانی قدم پہنچے اور خوش نصیب کوہ پیما تھے دو اطالوی، 29 سالہ لینو لیسیڈلی اور 40 سالہ اچیلی کوماگنونی۔

یوں تقریباً ایک صدی پہلے شروع ہونے والا کے ٹو کی دریافت وتحقیق و کوہ پیمائی کا سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔

اس تاریخی کہانی کو بعد میں مہم کے سربراہ پروفیسر ڈیزیو نے کتابی شکل میں Victory Over K-2 کے نام سے بھی شائع کیا۔

سرد موسم میں سر کرنے میں مزید چھ دہائیوں سے زیادہ انتظار

2014 تک کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 345 کوہ پیما کے ٹو سر کر چکے ہیں جن میں سے اٹھارہ خواتین بھی شامل ہیں اور تقریباً 86 کوہ پیما اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔

کے ٹو کو سر کرنے والے ہر چار میں سے ایک کوہ پیما واپس اترتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے جو کہ کسی بھی پہاڑ پر سب سے زیادہ جان دینے کا ریکارڈ ہے۔

2012 وہ سال تھا جب کسی ایک سال میں سے زیادہ 30 کوہ پیماؤں نے کے ٹو کو سر کیا۔

تاہم تصدیق شدہ اور حتمی تعداد کسی کو بھی معلوم نہیں کہ کتنے کوہ پیما چوٹی کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے۔

سردیوں میں اس کو فتح کرنے کی پہلی کوشش 1986 میں کئی گئی تھی۔ جس کے بعد تقریباً ہر سال ہی یہ کوشش ہوتی رہی جس میں مہم جو اپنی زندگی کی بازی بھی ہارتے رہے تھے۔

اس پہاڑ پر درجہ حرارت منفی 50 سے بھی زائد ہو جاتا ہے۔ انتہائی تیز سرد ہوائیں دو سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں۔

 


Comments