واضح رہےکہ گلگت بلتستان میں ایف سی کی 16
پلاٹونز پہلے ہی تعینات ہیں، امن وامان کی صورتحال بہترہونےکےبعد ان کی خدمات کی
مزیدضرورت نہیں تھی تاہم تعیناتی برقراررکھنےکےلیےمحکمہ جنگلات میں گنجائش نکال لی
گئی ہے۔
اس سلسلےمیں پہلےوزیراعظم
نےٹمبرمافیا کےخلاف نوٹس لیا مگررکاوٹ یہ تھی کہ آرٹیکل147 کےتحت وفاقی حکومت فورسزکومقامی
حکومت کی درخواست کےبغیرتعینات نہیں کرسکتی تھی۔
اب جبکہ مقامی
حکومت کی درخواست موصول ہوگئی ہےتوتوقع کی جاسکتی ہےکہ ایف سی کی تعیناتی فوری
طورپرکی جائےگی۔
گلگت بلتستان میں چارفیصد رقبےپرقدرتی جنگلات اور 5 فیصد رقبے میں شجرکاری پرمبنی درخت ہیں۔جنگلات سےمتعلق پالیسی سازی وفاق کےذمے ہے۔
جنگلات کی کٹائی بڑا مسئلہ
گلگت بلتستان میں ٹمبرمافیا کےہاتھوں کےجنگلات کی بےدریغ کٹائی بڑا مسئلہ ہے۔ یہ مافیاز زیادہ ترجنوبی علاقوں میں سرگرم ہیں جہاں جنگلات کے وسیع ذخائرموجود ہیں۔ یہ مافیاز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں اثرورسوخ استعمال کرکے نہ صرف پالیسیوں کو اپنے حق میں موڑتے ہیں بلکہ حکام کی ملی بھگت سے متعلقہ محکموں کو بھی بےاثر رکھتےہیں اور نچلی سطح پر رشوت،پولیس سے سازباز، دھونس دھمکیوں کا سہارے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتےہیں۔
معاہدے،پالیسیاں، ایمنسٹی اسکیمیں
1952 کےمعاہدے کےمطابق
دیامر واحد ضلع ہےجہاں جنگلات مقامی آبادی کی ملکیت ہیں جبکہ دیگر تمام اضلاع میں
جنگلات کی ملکیت حکومت کے پاس ہے۔
ستر کی دہائی میں
وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نےپہلی بار ٹمبرپالیسی منظورکی جس کے تحت مقامی افراد
کو محدود پیمانے پرپرانےدرخت کاٹنےکی اجازت دی گئی۔جبکہ کچھ حصہ حکومت کو رائلٹی
کی شکل میں ادا کرنی تھی۔ اس پالیسی کی مدت چھ سال تھی تاہم بعد میں آنےمختلف
حکومتوں نے اس کا تسلسل جاری رکھا۔ جس
کا فائدہ اٹھاکر یا ملی بھگت سے ٹمبرمافیا نے جنگلات کو ویرانوں میں تبدیل کردیا۔
1993 میں جب معین قریشی نگران وزیراعظم بنے تو انہوں نے کے پی کے،آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں جنگلات کی غیرقانونی کٹائی اور ٹرانسپورٹیشن پر پابندی عائد کردی۔ مگر ان کےبعد آنے والی پیپلزپارٹی کی حکومت نے پابندی برقرار رکھی تاہم غیر قانونی کٹائی اور اسمگلنگ بھی محدود پیمانے پر جاری رہی۔
نوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں پہلی مرتبہ ٹمبر ڈسپوزل پالیسی کے نام پر مافیاز کو باقاعدہ لائسنس دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جواز یہ پیش کیا گیا کہ چونکہ لینڈ سلائیڈنگ تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ اس سے متاثرہ درختوں کو کاٹ کر فروخت کیا جاسکتا ہے۔ جس کی زیادہ سے زیادہ حد بارہ ملین کیوبک فٹ مقرر کی گئی، ساتھ ہی پچاس روپے فی کیوبک فٹ کےشرح سے رائلٹی بھی عائد کی گئی۔ اس پارلیسی کی آڑ نے ٹمبرمافیا کو اپنی مرضی کے مطابق درخت کاٹنے کا موقع ملا ۔ انیس سو اٹھانوے میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے نئی پالیسی متعارف کرائی جس کے تحت درخت کاٹنے کی زیادہ سے زیادہ حد بیس ملین کیوبک فٹ مقرر کی گئی۔ پھر دو ہزار چار میں جنرل مشرف کی حکومت نے اسے بائیس ملین کیوبک فٹ کردیا۔۔ دو ہزار تیرہ میں راجہ پرویز اشرف حکومت نے اسے چھبیس ملین تک پننچا دیا۔ اکتوبر دو ہزار سترہ میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قانون سازکونسل کے اجلاس میں شرکت کےلیے گلگت کا دورہ کیا جہاں ایک عوام اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اسے ستائیس ملین کرنے کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی اس اقدام کوآخری ایمنسٹی اسکیم قرار دیا۔
مافیاز کوروکنا اتنا مشکل کیوں؟
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ٹمبر مافیاز حکومت اور بیوروکریسی میں اپنے مضبوط اثر ورسوخ کو استعمال کرکے نہ صرف اپنے حق میں پالیسیاں بنواتے ہیں بلکہ سرکاری حکام کی ملی بھگت سے متعلقہ محکمے کو بھی مفلوج کرکے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ اس کی مثال محکمہ جنگلات ہے جس کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز میں دفاتر تو موجود ہیں لین فیلڈ میں کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ کنزرویٹر ولایت نور کے مطابق محکمے کے پاس نہ فنڈز ہیں، نہ اسٹاف کی مطلوبہ تعداد، ٹرانسپورٹیشن، اسلحہ اور دیگرسہولیات۔ جو عملہ دستیاب ہے وہ بھی مستقل ملازمین نہیں بلکہ رضا کارانہ خدمات انجام دیتا ہیں۔ تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے ایہ ملازمین ٹمبر مافیا سے جاملتے ہیں۔
اس محکمےمیں اعلی حکام کی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں،محکمےپر ایک مخصوص ٹولہ قابض ہے جس کے تابے بانے ٹمبر مافیا سے جا ملتےہیں۔
جیساکہ ذکر کیا گیا کہ ضلع دیامر کےعلاوہ باقی تمام اضلاع میں جنگلات کی ملکیت حکومت کےپاس ہےجہاں پودے لگا کرجنگلات اگائےجاتےہیں۔ ضلع غذر میں وسیع رقبے پر ایسےجنگلات پھیلے ہوئے ہیں جن کا انتظام ایک خاص طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد چلا رہےہیں۔ ان جنگلات کےلیے پلانٹیشن اور ڈسپوزل کا عمل بھی پراسرار ہے۔
موجودہ حکومت کے ماحولیاتی دعوے
تحریک انصاف کےچیرمین عمران خان نے اپنی پارٹی پالیسیوں میں ماحولیات کی بہتری بھی شامل کی ہے جسے خیبرپختونخوا میں اپنے پچھلے دور حکومت میں نافذ کرایا یا کم ازکم دعویِ کیا۔ اب جبکہ وفاق میں پی ٹی آئی برسر اقتدار ہے تو ماحولیات سے متعلق ملک گیرپالیسی مرتب کرنا اور اس پر یکساں عمل درآمد کرنا بھی ضروری ہے۔ اس سلسلےمیں بلین ٹری منصوبہ قابل ذکر ہے۔
اس سلسلے میں وزیراعظم نے حال ہی میں گلگت بلتستان میں جنگلات کی کٹائی کا نوٹس لیا تھا جس کےبعد توقع کی جارہی تھی کہ وہ سابقہ حکومتوں کی مافیا دوست پالیسیوں کو ختم کرکے جنگلات کی کٹائی پر فوری پابندی عائد کریں گے۔ اور ساتھ ہی تعمیرات اور گھریلو ایندھن کےلیے متبادل طریقہ کار بھی وضح کریں گے۔ جیسا کہ سوئی گیس تک رسائی، سلنڈر کی رعایتی قیمت پر دستیابی اور بجلی کی مسلسل فراہمی وغیرہ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں سوئی گیس کی سہولت سرے سےمیسر نہیں۔ وسط ایشیا سے گیس امپورٹ کےلیے نوازشریف دور میں جو کوششیں ہوئی تھی وہ بھی سرخانے کی نذر ہوچکی ہیں۔ گھریلو سلنڈر کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہےجو متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہے جبکہ بجلی کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہیڈکوارٹر سٹی گلگت سمیت صوبے کے بیشتر علاقوں میں ہر تین سے چار دن میں ایک دن بجلی آتی ہے وہ بھی اتنی کم کہ بمشکل ایک سے دو بلب روشن ہوسکتےہیں۔ استری اور ہیٹر کے استعمال کا سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے۔
ایسےکسی بھی اقدام کے بجائے صرف ایف سی کی تعیناتی سے مسائل حل ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ایف سی اہلکار زیادہ سے زیادہ جنگلات کی غیر قانونی کٹائی اور لکڑی کی اسمگلنگ روکنے میں مدد گارثابت ہوسکتے ہیں مگردرختوں کی کٹائی کے لیے ستائیس ملین کیوبک فٹ کی قانونی حد کا کیا کریں جوماحولیات کی تباہی اور خطےکوویرانےمیں تبدیل کرنےکے لیےکافی ہے۔ غیرقانونی کٹائی روکنےکےلیے محکمہ جنگلات کی تنظیم نواور نئی تیعنیاتیاں بھی کی جاسکتی تھیں۔
اس صورتحال میں یہ تاثر ابھرتا ہےکہ محکمہ جنگلات کو اب ایف سی کےلیے ایندھن کا ذریعہ بنانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے جس کے سولہ پلاٹون گلگت بلتستان میں تعینات ہیں۔ ابتدائی طور پر چار پلاٹونز کی خدمات محکمہ جنگلات کے سپرد کی جارہی ہیں۔ مستقبل میں باقی ماندہ پلاٹونز کو بھی اسی محکمے یا کسی اور محکمےکےحوالے کرکے اخراجات کا بوجھ گلگت بلتستان پرڈال دیا جائےگا۔
اس تاثر کو غلط ثابت کرنےکےلیے وفاقی حکومت کو فوری طورپر مندرجہ ذیل اقدامات کرنے ہونگے۔
ٹمبر ڈسپوزل پالیسی کو صرف گرے اور سوکھے درختوں تک محدود کیاجائے۔
جنگلات میں ہر قسم کے صحت مند درختوں کی کٹائی پر فوری پابندی عائد کی جائے۔
خطے میں لکڑی کی مطلوبہ ضرورت پوری کرنے کےلیے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔
ایندھن کے لیے متبادل پالیسی کا اعلان کرکےاس پر فوری عمل درآمد کرایا جائے۔
بلین ٹری منصوبے کا دائرہ کار گلگت بلتستان تک بڑھا کر بنجرزمینوں پر بڑےپیمانےپر شجرکاری شروع کی جائے۔
محکمہ جنگلات کی تنظیم نو کرکے اس کے استعداد کار کو بڑھایا جائے۔
سرکاری نرسریوں میں شجرکاری اور ٹمبرڈسپوزل اسکیم کےتحت نیلامیوں کا طریقہ کار شفاف بنایا جائے۔
Comments
Post a Comment