باباجان سمیت سیاسی اسیران نوسال بعد جیل سےرہا

بابا جان سمیت 14 سیاسی اسیران کو 9 سال بعد جیل سےرہا کردیا گیا، ہنزہ پہنچےپر شاندار استقبال

باباجان، افتخار کربلائی اورغلام عباس کوجمعےکی شام گاہکوچ جیل سےرہا کردیا گیا جبکہ ان کے دیگر ساتھیوں کو اس سےقبل تین مراحل میں رہائی مل چکی تھی۔ عطاء آباد متاثرین کےحقوق کےلیے احتجاج کےپاداش میں 2011 میں جیل میں ڈالے گئے تمام 14 اسیران کی رہائی مکمل ہوگئی۔

گاہکوچ جیل سے نو سال بعد رہائی کےبعد بابا جان نے میڈیا سےمختصر گفتگوکی جس کےبعد ریلی کی شکل میں گلگت روانہ ہوگئے، گلگت میں امپھری کےمقام پرپیپلزپارٹی کے صوبائی صدر اور ایم ایل اے امجد حسین ایڈووکیٹ نے سیاسی اسیران کا استقبال کیا۔

سیاسی کارکن رہائی کے بعد رات 3 بجے کےقریب ہنزہ پہنچے تو ان کے استقبال کےلیے عوام کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ انہیں ہار پہنائےگئے، اجتماع سےخطاب کرتے ہوئے بابا جان نےعوام کا شکریہ ادا کیا اور اس سلسلےمیں نگران حکومت کی کوششوں کو سراہا۔ بابا جان نےکہا کہ ان کی رہائی دو ماہ قبل ہنزہ اور ملک کےدیگرحصوں میں ہونےوالےاحتجاجی مظاہروں کا نتجہ ہے۔

گلگت بلتستان حکومت نے اسیران علی آباد ہنزہ کی مرحلہ وار رہائی کا سلسلہ ایک ماہ قبل شروع کردیا تھا، دو اسیران سلمان کریم اور راشد منہاس کو 22 اکتوبر، عرفان علی، علیم اللہ، موسیٰ بیگ اور شکوراللہ بیگ کو16  نومبر اور عرفان کریم، عامرعلی، احمد خان، سرفراز احمد اور شیر خان 21 نومبر کو رہا ہوئے۔

رہائی پانےوالوں میں عرفان کریم، امیرعلی، سرفرازکریم، موسیٰ بیگ، امجدخان، سلمان کریم،علیم خان
عرفان علی، شکراللہ بیگ، راشد منہاس اور شیرخان شامل،تصویرفاروق طارق

ان سیاسی رہنماؤں کو دہشت گردی، قتل اور دیگر دفعات کے تحت 40 سے70 سال کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔ ان سزاؤں کے خلاف گزشتہ لمبےعرصہ سے اندرون و بیرون ملک احتجاج کا سلسلہ جاری تھا۔ گزشتہ ماہ اکتوبر میں علی آباد ہنزہ کے عوام نے شدید سرد موسم میں سات روز کا طویل ترین احتجاجی دھرنا دیا تھا۔ احتجاجی دھرنے میں خواتین، بچوں، بزرگوں سمیت ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کرتے ہوئے انتخابات کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد حکام نے مذاکرات کے بعد سیاسی اسیران کو مرحلہ وار رہا کرنےکی یقین دہانی کروائی تھی۔

باباجان اورساتھیوں کی رہائی کےحق میں گزشتہ ماہ ملک بھرمیں مظاہرےکیے گئےتھے،کراچی میں ہونےوالے
مظاہرےمیں اسیران کی فہرست بھی جاری کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ اگست 2011ء میں عطا آباد جھیل کے متاثرین کو معاوضہ جات اور رہائش کی جگہ فراہم کرنے کے مطالبہ پر بابا جان اور افتخارکربلائی کی قیادت میں ہونے والے احتجاج میں شریک مظاہرین کو منتشرکرنےکیلئے پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ، لاٹھی چارج اور فائرنگ کی تھی۔ فائرنگ کی زد میں آکر دو مظاہرین کی موت ہوگئی تھی۔ پولیس نے واقعے کا مقدمہ مظاہرین کے خلاف درج کرتے ہوئے 14 افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ چار سال قبل چودہ افراد کو دہشت گردی، قتل اور دیگردفعات کے تحت 40 سال سے 70 سال کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔

بابا جان اور ان کے ساتھیوں نے سزاؤں کے خلاف اپیل دائر کر رکھی تھی لیکن گزشتہ چار سال سے اپیل پر سماعت نہیں ہو رہی تھی۔ دنیا بھر میں بابا جان اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کے مطالبات کئے جارہےتھے۔ 

Comments