کشمیر،گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پراقوام متحدہ کی پہلی رپورٹ جاری



پاکستان کا کشمیرمیں انسانی حقوق کی تحقیقات کےلیےانکوائری کمیشن کےمطالبےکاخیرمقدم
پاکستان کےزیرکنٹرول متنازع علاقوں کی صورتحال کا موازنہ مقبوضہ کشمیرسےنہیں کیاجاسکتا، دفترخارجہ

اقوام متحدہ کےکمشنربرائےانسانی حقوق( اوایچ سی ایچ آر) نےکشمیرمیں انسانی حقوق کی صورتحال سےمتعلق جون 2018 میں جاری کی گئی رپورٹ کا فالواپ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک سال گزرنےکےباوجود صورتحال جوں کا توں ہے،فریقین نےاوایچ سی ایچ آر کی سفارشات پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا۔ 

مقبوضہ کشمیر، آزادکشمیر اورگلگت بلتستان میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی اس پہلی جامع رپورٹ میں فریق ممالک کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی تھی اور تحقیقات کےلیےکمیشن آف انکوائرتشکیل دینےکی سفارش کی تھی۔ فالواپ رپورٹ میں انکوائری کمیشن کا مطالبہ دھرایا گیا ہے۔

دفترخارجہ نےمقبوضہ کشمیرمیں بھارتی بربریت کی تحقیقات کےلیےانکوائری کمیشن کی تشکیل کےمطالبےکا خیرمقدم کیا ہےتاہم خبردارکیاہےکہ پاکستان کےزیرکنٹرول علاقوں کی صورتحال کا موازنہ مقبوضہ کشمیرسےنہیں کیاجاسکتا، عالمی ادارےکو متوازی خطوط کھینچنےسےگریزکرنا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیرملٹری زون کی شکل اختیارکرگیا ہےجب کہ آزادکشمیراورگلگت بلتستان غیرملکی سیاحوں کےلیےکھلےہیں۔ مسئلہ کشمیرکا واحد حل مقبوضہ کشمیرکےعوام کاحق خودارادیت یقینی بناناہےجسےسلامتی کونسل کی متعددقراردادوں میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ 

طاقت کابےجااستعمال

فالواپ رپورٹ میں مقبوضہ کشمیرمیں مئی 2018 اوراپریل 2019 کےدوران انسانی حقوق کی صورتحال کا احاطہ کیا گیا ہے، ساتھ ہی فروری 2019 میں پلوامہ حملےکےبعدکی صورتحال کا ذکربھی کیا گیا ہےجس کےنتیجےمیں پاکستان اوربھارت فوجی کشیدگی کی صورتحال پیداہوئی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ سال 160 شہری جاں بحق ہوئےجودہائی کی سب سےبڑی تعداد ہے۔اس سے قبل 2008 سے2017 کےدوران تشددکےواقعات میں 586 ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں جن میں 267 مجاہدین اور159 سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیرمیں طاقت کےبےجااستعمال اوراس کےنتیجےمیں شہری ہلاکتوں کی کوئی نئی تحقیقات شروع نہیں کی۔ بھارت نے 2016 میں پانچ افراد کے ماورائےعدالت قتل کی تحقیقات کی صورتحال کاکوئی علم نہیں ہوسکا۔ جبکہ 2017 میں ماورائےعدالت قتل اورتشددکی تحقیقات ہی نہیں کی گئیں نہ قتل و تشدد میں ملوث سیکیورٹی اہلکاروں کوعالتوں سے کوئی سزا دی گئی۔ بھارت کی جانب سے پیلٹ گن کا استعمال اب بھی جاری ہےجن سے2016 کےوسط سے2018 کے اختتام تک 1253 افراد بینائی سے محروم ہوچکےہیں۔رپورٹ میں بھارتی فورسزکےسرچ آپریشنز پربھی شدید تنقیدکی گئی ہےاور مقبوضہ کشمیر میں اسپیشل لیگل ریجیم پرسوال اٹھاتےہوئےکہا گیا ہےکہ اڑمڈ فورسزاسپیشل پاورایکٹ 1990 احتساب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

آزادکشمیر، گلگت بلتستان کی صورتحال

اقوام متحدہ کےدفتربرائےانسانی حقوق کی تازہ رپورٹ میں آزادکشمیراورگلگت بلتستان کی صورتحال کابھی جائزہ لیتےہوئےکہا گیا ہے کہ لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نوعیت مختلف ہے۔ آزادکشمیراورگلگت بلتستان کےشہریوں کوآزادی اظہاررائے،پرامن تنظیم سازی سمیت متعددبنیادی حقوق سے محروم رکھا گیاہے،گزشتہ رپورٹ میں جن قانونی رکاوٹوں کی نشاندہی کی گئی تھی ان سمیت کسی مسئلےکےحل کےلیےکوئی اقدام نہیں کیا گیا۔سیاسی اپوزیشن اورسول سوسائٹی کےخلاف انسداد دہشتگردی قوانین کے غلط استعمال کا سلسلہ جاری ہے۔ انہیں مسلسل سیاسی سرگرمیوں کی پاداش میں خطرات، دھمکیوں  گرفتاریوں کاسامناہے۔ انسانی حقوق کےدفترکو آزادکشمیرسےلوگوں کولاپتاکیےجانےکی باوثوق اطلاعات بھی ملی ہیں۔ 

رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ جون 2018 میں جاری کی گئی رپورٹ کی سفارشات پربھارت نے عمل کیا اورنہ ہی پاکستان نے، انسانی حقوق کا دفترچندنئی سفارشات کے اضافےکےساتھ گزشتہ سفارشات پرعمل درآمد کا مطالبہ کرتاہے۔ 47 رکن ممالک پرمشتمل یواین انسانی حقوق کمیشن سےمطالبہ کیاجاتا ہےکہ وہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کےالزامات کی آزادانہ جامع عالمی تحقیقات کےلیےممکنہ کمیشن آف انکوائری کی تشکیل پرغورکرے۔

۔

Comments