Rally in Hunza calls for release of Baba Jan and other political activists |
ہنزہ: عطاآبادسانحےکےمتاثرین کےحق میں مظاہرےکی پاداش میں عمرقیدکی سزاپانےوالےسیاسی رہنما باباجان اوران کےدیگرساتھیوں کی رہائی کےحق میں ہنزہ کےعلاقےعلی آبادمیں اتوارکوزبردست احتجاج کیاگیاجس میں اسیران کےخاندان اورضلع بھرعوام نےبھرپورشرکت کی۔
مظاہرین نےبینراورپلےکارڈ اٹھارکھےتھےجن پراسیران کی رہائی کامطالبہ کیاگیاتھا اورمقامی حکومت کےظالمانہ سلوک کےخلاف نعرے درج تھے۔ مظاہرین سےمقامی عمائدین، انسانی حقوق کےکارکنوں اورسیاسی وسماجی شخصیات نے خطاب کیا۔
مقررین نےاپنےخطاب میں کہاکہ احتجاج کےپاداش میں سیاسی وسماجی کارکنوں پربےبنیاد الزامات لگاکر انہیں عمر قید کی سزائیں دینا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہےجس کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ باباجان اورساتھیوں کا قصوریہ ہے کہ انہوں نےعطاآباد سانحےکےمتاثرین کےحقوق کےلیےجدوجہد کی۔سانحے کےنتیجےمیں عوام کودرپیش مشکلات کو اجاگرکیا اور بےحس وبدمست حکمرانوں کی توجہ متاثرین کی حالت زارکی طرف مبذول کرانےکی کوشش کی۔ اسیران کےخاندان گزشتہ 8 سالوں سےجس کرب سے گزررہےہیں، بدمست حکمرانوں کا اس کوئی احساس نہیں، وزیراعلیٰ حفیظ الرحمان جب اپوزیشن میں تھےتوبڑے بڑے دعوےکیےتھے، اقتدارمیں آنےکےبعد وہی روایتی بےحسی کا مظاہرہ کرتےہوئےخاموشی اختیارکرلی اورتمام وعدےبھول گئے۔
مقررین نےمطالبہ کیا کہ باباجان اور افتخار حسین سمیت تمام اسیران پر بےبنیاد الزامات ختم کرکےانہیں کو فی الفور رہا کیاجائے۔ پولیس کےہاتھوں باپ بیٹےکےقتل کی جوڈیشل انکوائری سامنےلائی جائے۔ باپ بیٹے کےقتل میں ملوث پولیس اہلکاروں کو گرفتارکرکےقرارواقعی سزائی دی جائیں۔ مقتولین کےورثا اور اسیران کےخاندانوں کی مدد کی جائے۔
سانحہ عطاآباد کےمتاثرین کےحق میں احتجاج اور گرفتاری
ہنزہ کےنواحی علاقےعطاآباد میں پہاڑ سرکنےاوراس کےنتیجےمیں جھیل بننےکا ہولناک واقعہ جنوری 2010 میں پیش آیا تھا۔ جس کےنتیجےمیں 20 سے زائدافرادجاں بحق اورسیکڑوں گھربہہ قابل کاشت زمینں اور ہزاروں درخت تباہ ہوگئےتھے۔متاثرین کی فوری مدد کےلیےفوکس سمیت سماجی ادارے اور چینی حکومت سامنےآئےمگرتباہ کا پیمانہ اتناوسیع تھاکہ کئی روزکی جدوجہدکےباوجود حالات پرقابوپانےمیں مشکل ہوگیا۔ جس کی وجہ سےمقامی آبادی کوکمیونٹی اداروں کی مدد تک پاکستان کی مین اسٹریم میڈیا تک رسائی حاصل کرنی پڑی۔ اس تمام عرصےمیں مقامی حکومت کی شرمناک بےحسی برقراررہی۔ جب معاملےکوقومی میڈیا نے بھرپورطریقے سےاٹھایا تو اس وقت کی پی پی حکومت نےامدادی فراہم کرنےاورمتاثرین کو بحال کرنےکےوعدےکئے۔ تاہم قومی میڈیا کےجانےکےبعد وہی روایتی بےحسی اختیارکرلی۔ حکومت کی عدم دلپچسپی دیکھ کر چین نےبھی ہاتھ کھینچ لیےاورسماجی ادارےبھی جواب دےگئے۔ جس کی وجہ سے مثاثرین کےحالات گھمبیرہونےلگے۔
Affected family of Attaabad killed by police on August 11 during CM visit |
حکومتی بےحسی اوروعدہ خلافی کےخلاف جب مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا توسانحےکےڈیڑھ سال بعد اگست 2011 میں زیراعلیٰ سید مہدی شاہ کابینہ کےدیگرچند اراکین کےساتھ ہنزاہ پہنچے۔ ان کےآمد پرعلی آباد ہنزہ میں شدید احتجاج کیا گیا۔وزیراعلیٰ مہدی شاہ نےپولیس کو 10 منٹ کےاندرمظاہرین کومنتشرکرنےکا حکم دیا جس پرپولیس نےمظاہرین پرےفائرکھول دیا۔ پولیس کی اندھادھند فائرنگ سےشکراللہ بیگ اور اس کا جواں سال بیٹا جاں بحق اور 5 افرادزخمی ہوگئے ۔ پولیس کی اس وحشیانہ کارروائی کےبعد ہنزہ بھرمیں ہنگامےپھوٹ پڑےتھے۔گلگت بلتستان حکومت نےفائرنگ کےواقعےکی تحقیقات کےلیےجوڈیشل انکوائرکمیشن بنایا تاہم اس کےنتائج آج تک سامنےنہیں لائےجاسکے۔ فائرنگ میں ملوث اہلکاروں کےخلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔پولیس گردی کےخلاف گلگت اورغذرمیں بھی مظاہرےکیے گئے۔
ہنگامہ آرائی کےبعدپولیس نے 40 افراد کوگرفتار اور80 سےزائد افرادکےخلاف مقدمات درج کیےگئے جن میں کمیونٹی لیڈرز، ٹیچرز،سماجی وسیاسی کارکن، طلبہ اورزندگی کےمختلف شعبوں میں خدمات انجام دینےوالے افرادشامل تھے۔ مقدمات میں نامزدافراد کی گرفتاری کےلیےرات کی تاریکی میں گھروں پرچھاپےمارےگئے اور چادراورچاردیواری کےتقدس کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ ان مقدمات میں باباجان بھی نامزد تھے جنہوں نے دوہفتے بعد گرفتاری دےدی۔ گرفتارافراد پرانسداددہشت گردی ایکٹ کےتحت مقدمات درج کیےگئےاور انسداد دہشت گردی عدالت نےانہیں عمرقید کی سزائیں سنائیں۔
Baba Jan and 4 other activists were released for a short period in 2012 |
مظاہرے،رہائی اوردوبارہ گرفتاری
باباجان اورسیاتھیوں کی گرفتاری اورسزاوں کےخلاف اندرون اوربیرون ملک بڑےپیمانےپرمظاہرےہوئے،پروگریسویوتھ کےمطابق ملک بھرمیں 50 سےزائد مظاہروں اورریلیوں کےعلاوہ بیرون ملک بھی 20 سے زائد ممالک میں مظاہرےکیےگئے۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ گلگت بلتستان کےکسی فرزندکی گرفتاری کےخلاف اتنےبڑےپیمانےپر مظاہرےکیےگئےہوں۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان اورہیومن رائٹس واچ نےبھی باباجان اور ساتھیوں کو سیاسی قیدی قراردیا اوران کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ سینیٹ کمیٹی برائےانسانی حقوق میں بھی باباجان اورساتھیوں کی قید اورجیل میں ٹارچرکیےجانےکا معاملہ اٹھایا گیا اورچیف سیکریٹری گلگت بلتستان کو طلب کیاگیا۔ کمیٹی کےچیرمین افراسیاب خٹک نےچیف سیکریٹری کی سرزنش بھی کی جب اس نےاپنی بریفنگ میں بتایاکہ باباجان اوران کےساتھ ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
انہیں مظاہروں کا نتیجہ تھاکہ ستمبر 2012 کوچیف کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی اور تین رکنی بنچ نےانسداد دہشت گردی عدالت کےفیصلےکومعطل کرکےباباجان اوران کےچارساتھیوں کی ضمانت منظورکی۔کوبےگناہ قراردیتےہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا۔ تاہم چندہی دن بعدضمانتیں منسوخ کی گئیں اورانہیں دوبارہ گلگت جئل میں ڈال دیاگیا۔
Iftikhar Karbalai, activist KNM in Gahkuch prison |
نومبر 2015 میں میرآف ہنزہ راجہ غضنفرکے گورنربننے کےبعد جب گلگت بلتستان کےحلقہ 6 ہنزہ کی سیٹ خالی ہوئی تو مسلم لیگ ن نے میرغضنفرکے بیٹے پرنس سلیم کوٹکٹ دےدیا جنہیں پہلے ہی بینک ڈفالٹ اورفراڈ کے مقدمات کا سامنا تھا۔ پرنس سلیم کے مقابلے میں باباجان سمیت 24 دیگر امیدواروں نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے، ابتدا میں الیکشن کمیشن نےباباجان کےکاغذات مستردکیےتاہم الیکشن ٹریبونل نےباباجان کےحق میں فیصلہ دےدیا اورانہیں جیل سے الیکشن لڑنےکی اجازت دےدی۔
حلقےمیں ضمنی الیکشن کےلیے 28 مئی 2016 کی تاریخ طےکی گی تھی۔ الیکشن سے تین روزقبل بابا جان کےحامیوں نےہنزہ میں ایک اعظیم الشان ریلی نکالی جس نےحریف امیدواروں پرہیبت طاری کردی۔ اسی دن پیپلزپارٹی کےظفراقبال نےسپریم اپیلٹ کورٹ سےرابطہ کیا اور باباجان کودوزیرالتوا مقدمات میں سزاکی بنیاد پرنااہل قراردینےکی استدعاکی۔ اپیلٹ کورٹ کےچیرمین کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نےدرخواست کی فوری سماعت کی اور عدالتی فیصلہ آنےتک ضمنی الیکشن تین ہفتے کےلیے ملتوی کرنےکا حکم دیا۔ 9 جون 2016 کو اپیلٹ کورٹ نےاکثریتی فیصلےکی بنیاد پرباباجان کےخلاف انسداد دہشت گردی عدالت کی عمرقید کی سزا بحال کردی اور انہیں الیکشن کےلیےنااہل قراردےدیا۔
باباجاں اورقراقرم نیشنل موومنٹ کےرکن افتخارکربلائی سمیت 11 افراد گزشتہ 8 سال سے کاہکوچ جیل میں قید ہیں۔ سپریم اپیلٹ کورٹ کےڈویژن بینچ کےفیصلےکےبعد مزید اپیل کےلیےکوئی فورم بھی نہیں بچاتھا۔ رواں سال جنوری میں سپریم کورٹ کے فیصلےکےبعد اپیل کی راہ ہموارہوئی ہے۔
باباجاں کون ہیں
باباجان ہنزہ کےمعروف سیاسی وسماجی رہنماہیں۔ وہ لیبرپارٹی پاکستان کےیوتھ سیکریٹری اور پروگریسویوتھ فرنٹ گلگت کےچیف آرگنائزر رہ چکےہیں۔ انہوں نےقانون ساز اسمبلی کے 2015 کے انتخابات میں عوامی ورکرزپارٹی کےپلیٹ فارم سےحصہ لیا اور جیل میں بیٹھ کر 4500 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبرپر رہے۔ اس الیکشن میں میرغضنفرکامیاب ہوئےس جبکہ پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف کے امیدوار بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبرپرآئے۔
باباجان کوتعلق ہنزہ کےعلاقےناصرآباد سے ہے، اپنی سیاسی جدوجہد کےباعث وہ نہ صرف گلگت بلتستان کےطول وعرض بلکہ پاکستان اوردنیا بھرجانےجاتےہیں۔ گلگت بلتستان کی وہ واحد شخصیت ہےجن کی گرفتاری کےخلاف ملک بھر اور دنیا کے22 ممالک میں رنگ ونسل ، مذہب اور جغرافیائی تعصب سےبالاتر ہوکر مظاہرےکیےگئے،جوکہ ایک رکارڈ ہے۔
باباجان کی ایک ڈاکیومنٹری 2010 میں سامنےآئی تھی جس میں نشاندہی کی گئی تھی کہ ہنزہ کےقدرتی وسائل کی لوٹ مارکس طرح کی جارہی ہے اور اس کے پیچھےکون سی قوتیں اورشخصیات ملوث ہیں۔
دیگراسیران کےنام
اگست 2011 میں اس وقت کےوزیراعلیٰ مہدی شاہ کےدورہ ہنزہ کےموقع پرشدید احتجاج، ہواتھا اور مظاہرین پرپولیس کی اندھادھند فائرنگ سے باپ بیٹا جاں بحق ہوگئےتھے۔ پرامن مظاہرین پر پولیس کی بربریت مظاہرین کواشتعال دلانےکا باعث بنا اوردودن تک پورےعلاقےمیں شدید ہنگامے پھوٹ پڑے۔ پولیس نےفائرنگ میں ملوث اہلکاروں کےخلاف کارروائی کےبجائےاپنی پوری قوت مظاہرین کوکچلنےپرصرف کی۔ ہنگامہ آرائی کے بعد 40 افراد کو گرفتار اور 80 سےزائد افراد کےمقدمات درج کیےگئے، گرفتار کیےبیشترافراد کو بعدمیں رہاکردیا گیا تاہم عوامی ورکرزپارٹی اور دیگرمختلف قوم پرست جماعتوں کےکل 14 کارکنوں کو چن کر مقدمےمیں ملوث کیا گیا اوران کےخلاف انسداد دہشت گردی قوانین کےمقدمات درج کیے گئے۔ انسداد دہشت گردی عدالت نےان افراد کو عمرقیدکی سزائیں سنائیں جسے سپریم اپیلٹ کورٹ نےبھی برقرار رکھا۔ اسیران میں بابا جان کےعلاوہ گنش سےتعلق رکھنےوالے قراقرم نیشنل موومنٹ کے کارکن افتخار کربلائی، ہنزہ علی آباد کےامیرعلی،سلمان کریم، عرفان کریم اور شکراللہ بیگ عرف میٹھو، ششکٹ کےموسیٰ بیگ اوراحمدخان اور حسن آباد کےکلیم اللہ شامل ہیں، ان تمام اسیران کو گاہکوچ جیل میں رکھا گیا ہے جبکہ ایک کارکن غلام عباس گلگت جیل میں قید ہے، دیگر3 قیدیوں کےنام معلوم نہیں ہوسکے۔ راحت علی شاہ۔
Comments
Post a Comment