گلگت بلتستان اورخیبرپختونخوا کی قدیم مقامی زبانوں کومعدومی کےخطرےکےسامنا ہے، اس کی وجہ ریاستی تعلیمی نظام اور میڈیا میں ان زبانوں کونمایندگی نہ ملنا ہے،مقامی زبانہیں معدوم ہوئیں توپہاڑی علاقوں میں رہنےوالی کمیونٹیز کی شناخت، تاریخ،ادب اور دیگراقدارختم ہوسکتےہیں۔، حکومت کوپہاڑی کمیونٹیزکےزبانوں کوتحفظ دینےکےلیے اقدامات کرنےہوں گے۔
ان خیالات کا اظہار سوات کےعلاقے بحرین میں پہاڑی زبانوں سے متعلق ایک اعلیٰ سطح کانفرنس میں کیا گیا۔ کانفرنس کا اہتمام مقامی تنظیم اوریونیورسٹی آف سڈنی کےاشتراک سے کیا گیا تھا جس میں پہاڑی کمیونٹیزکو درپیش سماجی، ثقافتی، معاشی اورسیاسی چیلنجز کااحاطہ کیاگیا
کانفرنس میں شریک ادیبوں ، مصنفین اور سماجی رہنماوں نے ان چیلنجز سے نمنٹنے کےلیے مختلف تجاویز پیش کیں۔
کیٹلاگ اوررکارڈ کی عدم دستیابی
پاکستان میں حکومت اور جامعات کی سطح پرآج تک کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا کہ ملک میں بولی جانےوالی زبانوں کا پروفائل تیار کیا جائے، نیشنل ڈیٹابیس ، تدریسی مواد اورمیڈیا میں اردو، پشتو، پنجابی، سندھی، بلوچی اورسرائیکی کےعلاوہ دیگرکوئی زبان شامل نہیں ہے، عالمی زبانوں کے فہرست ایتھنولاگ کےمطابق پاکستان میں مجموعی طور پر74 زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن بدقسمتی سےچند ہی زبانوں کےسوا باقی تمام زبانیں بھری طرح نظراندازکی گئی ہیں۔ اس کےمقابلےمیں یہ کاوشیں غیرملکی ریسرچرز نے برطانوی حکومت اورعالمی تنظیموں کےتعاون سے کیا۔
اس سلسلےمیں آئرش ماہرلسانیات اورادیب سرجارج ابراہام گرائرسن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں جنہوں نےنوآبادیاتی دور میں برٹش انڈیا میں بولی جانےوالی 364 زبانوں کا کیٹیلاگ تیار کیاتھا جو19 جلدوں پر مشتمل ہے۔ ان کی تحقیق لنگوسٹک سروے آف انڈیا کے عنوان سے 1903 سے 1928 کے درمیان عرصے میں شائع ہوئی۔ اس کیٹیلاگ میں پاکستان کےپہاڑی علاقوں میں بولی جانےوالی کچھ زبانیں بھی شامل ہیں۔
گرائرسن سے قبل گوٹلائب ویلیم لٹنر نے ان علاقوں کی زبانوں سے متعلق تحقیق کی تھی جو دردستان کی زبانیں اور نسلیں کےعنوان سے 1877 میں شائع ہوئی تھی۔
لٹنر کے بعد برطانوی فوج کے افسر جان بیڈلف نے ہندوکش کےقبائل کے عنوان سے 1880 میں ان علاقوں کی زبانوں اورلوگوں سے متعلق کتاب شائع کی۔
اس کےبعد بھی معروف غیرملکی ماہرین لسانیات اور مصنفین نے پہاڑی کمیونٹیز کی زبانوں سے متعلق لازوال کاوشیں کیں جن میں جارج مورگن اسٹائرنی، کارل جیٹمار، ڈی ایل آر لوریمر، فریڈرک بارتھ، کولن میسیکا، رچرڈ اسٹرینڈ شامل ہیں۔
پاکستان کے شمالی علاقوں کی زبانوں سے متعلق باقاعدہ سروے 1986 میں شروع کی گئی، سروے کا اہتمام وزارت ثقافت کے ماتحت ادارے لوک ورثہ کی توسط سے سمرانسٹی ٹیوٹ آف لنگوسٹکس نےکیا۔
قائداعطم یونیورسٹی کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز نے معاونت فراہم کی اوردونوں اداروں کے اشتراک سے یہ سروے 1992 میں 5 جلدوں میں شائع کیا گیا۔ سوشیو لنگوسٹک سروے آف ناردن پاکستان کے عنوان سے شائع ہونے والے اس سروے میں شمالی پاکستان کی 25 زبانوں پرمختلف محقیقین کے مقالےشامل کیےگئےہیں، اس سروے میں گرائرسن کے لنگوسٹک سروے آف انڈیامیں بہتری لانےکی کوشش کی گئی جیساکہ اس کےدیباچےمیں بھی اس کا ذکرکیاگیا ہے۔ سروےمیں بلتی، بروشسکی، دومکی اور وخی زبان پر بیک اسٹروم اورپیٹرسی، شینا پر راڈلوف، کارلا ایف اورچترال کی زبانوں پر ڈیکر اورکینڈل ڈی کےمقالےشامل ہیں۔ اس کےعلاوہ ہندکو، گجری، اوشوجو، وینیسی، اورموری اورپشتوسمیت مختلف زبانوں کامکمل کیٹلاگ شامل ہے۔
تحفظ کی ضرورت
گلگت بلتستان کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ثقافتوں اورزبانوں کی گونا کونی میں اپنی مثال آپ ہے، یہاں تبتی، انڈوایرانی اور دردی زبانوں کےعلاوہ ایک ایسی منفرد زبان بھی بولی جاتی ہے جسے بروشسکی کہاجاتاہے، یہ زبان دنیا بھرکی تمام زبانوں سے الگ تھلک ہے، دنیابھرکےماہرین لسانیات نے اس زبان پربےشمار کام کیا لیکن اب تک ثابت نہیں ہوسکاکہ بروشسکی عالمی زبانوں کےکون سے خاندان سے تعلق رکھتاہے۔ لٹنر، گرائرسن اور جان بیڈلف کےعلاوہ جرمن ماہرلسانیات پروفیسر ہلٹروڈ ہربر، کینیڈین اسکالر ٹیفو اوربرٹش انڈین آفیسر ڈی ایل آر لوریمر نےبھی بروشسکی پرتحقیق کی اوراسے زندہ رکھنےمیں اپنا بھرپورحصہ ڈالا لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ حکومتی سطح پراس منفرد زبان کی ترویج وترقی کےلیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔
Comments
Post a Comment