گلگت بلتستان کے
شہری پاکستانیوں سے زیادہ پاکستان کے وفادار، قربانیاں دینےمیں سب سےآگے، شہری
حقوق بھی حاصل،لیکن حیثیت ثانوی، عدالتی معاون سلمان اکرم راجہ نے راز کھول دیا۔
پیر کو سپریم
کورٹ میں گلگت کےبنیادی حقوق سے متعلق کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل انور
منصورخان نے پیش ہوکر عدالت کو بتایا کہ گلگت بلتستان کو بنیادی حقوق فراہم کیے
جائیں گے، فنڈز بحال اور پارلیمنٹ میں تین نشستیں دی جائیں گے۔ لیکن قومی اسمبلی
اور سینیٹ میں نشستیں قانون سازی کےبغیر نہیں دی جاسکتیں۔
سات رکنی لارجر
بنچ کے سربراہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ اس معاملے کے بین الاقوامی
اثرات بھی ہوں گے۔ بنچ کے ارکان جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس
عطابندیال نے کہا کہ گلگت بلتستان سے متعلق فیصلہ وفاقی حکومت اور پارلیمنٹ نے کرنا ہے جس کےلیے قانون سازی کرنی
ہوگی، ہم پارلیمنٹ کو حکم تو نہیں دے سکتے اور عدالت سے گلگت بلتستان کی حیثیت
تبدیل کرنے کا نہ کہا جائے۔
عدالتی معاون سلمان
اکرام راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کا نام پاکستان کے آئین میں موجود
ہے، عدالتی فیصلہ بھی موجود ہے جس کےتحت یہاں کے لوگ پاکستان کے شہری ہیں۔ جب شہری
حقوق حاصل ہیں تو قانون سازی میں کردار بھی دیاجائے۔ حقیقت یہ ہےکہ گلگت بلتستان
کے لوگوں کو فرسٹ کلاس شہری نہیں سمجھا جاتا۔
سلمان اکرم راجہ کے دلائل پر چیف جسٹس
نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے وہی حقوق ہیں جو
پاکستانی شہری کے ہیں، انہیں سیکنڈ کلاس شہری نہ کہیں، اپنے الفاظ واپس لیں۔ جسٹس
عظمت سعید نے کہا کہ یہ بڑا حساس ایشو ہے، الفاظ کے چناو میں احتیاط کریں، آپ کیسے
ایسا سرٹیفکیٹ دے سکتے ہیں؟ پاکستان کو شرمندہ نہ کریں، ججوں کی برہمی پر سلمان
اکرم راجہ نے اپنے الفاظ واپس لےلیے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں عدالت کیا حکم کرے؟ بہتری
کی ضرورت کہاں ہے؟ کیا آپ چاہتے ہیں گلگت بلتستان کے لوگوں کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نشستیں ملیں؟ یہ حق آئینی ترمیم کے بغیر کیسے مل سکتا
ہے؟ کیا ہم مقننہ کو قانون سازی کا کہہ سکتے ہیں؟
اس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ گلگت
بلتستان کو پاکستان کا حصہ بنایا جا
سکتاہے، چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ کیا عدالتی حکم سے کسی حصے یا علاقے کا
الحاق ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے عدالتی معاون اعتزاز احسن نے کہا بین
الاقوامی طور پر جس علاقےمیں استصواب رائے ہونا ہے اس کا اسٹیٹس تبدیل نہیں
کیاجاسکتا۔ اس معاملےکو حد سےزیادہ احتیاط سے نمٹانا ہے۔ جسٹس عطا بندیال نے ریمارکس
دیے کہ انڈیا نے گلگت بلتستان کو اپنا علاقے میں شامل کر کے اور متنازع علاقے کا
اسٹیٹس تبدیل کرکے غلط کیا۔ عالمی اور ڈومیسٹک ایشوز کو چھوئے بغیر گلگت بلتستان
کے لوگوں کے لیے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے وضح کیا کہ آئینی ترمیم کے
بغیر نشستیں مختص نہیں ہو سکتیں اور ترمیم ممکن بھی نہیں۔ عدالت کا فوکس بنیادی
حقوق اور آزاد عدلیہ کی فراہمی پر ہے، کیا حکومت دو دنوں میں تیار کیا گیا ڈرافٹ پیش
کر سکتی ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی تو بہت سی تبدیلیاں ہوں گی، عدالت
ایک ہفتے کی مہلت دے دے تو ڈرافٹ دینے پر اعتراض نہیں، عدالت نےڈرافٹ جمعے کوپیش
کرنے کاحکم دے کر سماعت ملتوی کردی۔
Comments
Post a Comment