گلگت بلتستان میں ایک اور قوم پرست رہنما کو
سیاسی سرگرمیوں کےپاداش میں بےبنیاد الزامات پر جیل بھیج دیا گیا۔ بالاورستان
نیشنل فرنٹ ضلع غذرکے جنرل سیکریٹری قیوم خان کو پہلے انسداد دہشتگردی ایکٹ کے
فورتھ شیڈول میں ڈال دیا گیا اور پھر فورتھ شیڈول کی خلاف ورزی کے الزام میں
گرفتار کرکے زیر دفعہ 11 ای ای کے تحت ان
پر مقدمہ درج کیا گیا۔
جی بی ٹریبیون کے رابطہ کرنے پران کے بھائی نے بتایا کہ قیوم خان کو
پیر کے روز پولیس نے گھر سے حراست میں لیا، اگلے روز انہیں گاہکوچ میں ایس پی آفس
لے جایا گیا، ایس پی قیصر کے حکم پر انہیں اگلے روز گلگت میں انسداد دہشت گردی
عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے قیوم خان کےخلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا
جس پر انہیں واپس یاسین لاکر ایف آئی آر درج کی گئی جس کے بعد انہیں گھروالوں سے
ملنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔
جمعےکو قیوم خان کو دوبارہ انسداد دہشت گردی
عدالت کے جج شہبازخان کی روبرو پیش کیا گیا۔
عدالت میں موجود ایک وکیل نے جی بی ٹریبیون کو
بتایا کہ قیوم خان پر فورتھ شیڈول کی خلاف کے دو الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ایک
الزام میں کہا گیا ہےکہ وہ ایس پی کی اجازت کے بغیر شندور گئے جبکہ دوسرا الزام ہے
کہ انٹیلی جنس اہلکاروں نے قیوم خان کی گاڑی غذر ڈسٹرکٹ کی حدود سے باہر دیکھنےجانےکی
رپورٹ دی تھی۔ اپنے دفاع میں قیوم خان نے عدالت میں ایس پی کا اجازت نامہ پیش کیا
جس میں انہیں شندورجانے کی اجازت دی گئی تھی۔ دوسرے الزام کےبارےمیں موقف اختیار
کیا کہ فورتھ شیڈول میں ان کا نام ہے، گاڑی کا نہیں، گاڑی کوئی بھی کہیں بھی لے
جاسکتاہے۔ تاہم عدالت نے قیوم خان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا جس
کے بعد انہیں ڈسٹرکٹ جیل گاہکوچ منتقل کردیاگیا۔
واضح رہے معروف اسیر سیاسی رہنما بابا جان
کوعمرقید کی سزا بھی انہیں معزز جج نے سنائی تھی۔ بابا جان، طاہرعلی طاہر اوردیگر
اسیران پر الزام تھا کہ انہوں نے گوجال میں پولیس کے ہاتھوں عطاآباد جھیل کے 2
متاثرین کے بہیمانہ قتل کےخلاف احتجاج کیا تھا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ قیوم خان کو فورتھ
شیڈول میں ڈالنے کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا گیا یہ قانونی لحاظ سے ناقابل فہم ہے۔
کیونکہ ان کا تعلق جس قوم پرست جماعت سے ہے یا جس جماعت کے پلیٹ فارم سے وہ سیاسی سرگرمیاں
سرانجام دیتےرہےہیں اس پرگلگت بلتستان میں کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔ نہ ہی قیوم
خان کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ گلگت بلتستان میں امن وامان کے مسائل پیدا کرنے کا
باعث بنے۔ وہ خدمت گزاری، عوام دوستی، اعلیٰ کردار اور لوگوں میں گھل ملنے والی
شخیصیت کے طور پر جانے جاتےہیں۔ ان کی سلجھی ہوئی اور سنجیدہ شخصیت کسی بھی قسم کے
شک وشبے سے بالاتر ہے۔ البتہ سمجھ میں آنے والی بات یہ ہے کہ طاقتورحلقےمقامی
سیاسی جماعت بی این ایف،خاص طوراس کےسربراہ عبدالحمید خان سےخوش نہیں، ان کا الزام
ہے کہ عبدالحمیدخان نےبھارت سے ہاتھ ملایا ہوا ہے اور بیلجئم میں رہ کر پاکستان
کےخلاف بیانات دیتےہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگرایسی بات تھی تو پھرکارروائی
کچھ ایسے لوگوں کےخلاف ہوتی جو مبینہ طور پرعبدالحمید خان سے مالی فوائد حاصل
کررہےہیں اوربڑے بڑے کاروبارقائم کیے ہوئےہیں۔
ایک ماہرقانون کا کہنا تھا کہ قیوم خان کی
گرفتاری پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے متعلق گلگت بلتستان میں ہونےوالےحالیہ
مظاہروں کا ردعمل ہوسکتا ہےتاکہ لوگوں میں خوف وہراس پیدا کرکے انہیں مظاہروں سے دور رکھا
جائے۔
قیوم خان نے گزشتہ سال گلگت بلتستان قانون ساز
اسمبلی کے انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔ تاہم حکومت کےاوچھے ہتھکنڈوں کے باعث
انہیں الیکشن سے دو دن پہلے مہم ترک کرکے بائیکاٹ کا راستہ اختیار کرنا پڑاتھا۔ قیوم
خان نے بائیکاٹ کواقتصادی راہداری منصوبےکے خلاف احتجاج قراردیا تھا تاہم یہ امر
قابل غور ہے کہ علاقائی الیکشن کمیشن نے آخری لمحات میں ان کی انتخابی علامت
مارخورکوالیکشن علامات کی فہرست سےیہ کہہ کر نکال دیا تھا کہ مارخورگلگت بلتستان
اسکاوٹس کی بھی علامت ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کا انتخابی نشان شیر
بھی کسی ادارے کے علامات میں شامل ہے، مگر اس پرالیکشن کمیشن نےکبھی اعتراض نہیں
اٹھایا۔
ان الیکشنزسے چند روزقبل گلگت بلتستان کی آزادی
کے ہیرو کرنل حسن خان کے فرزند کرنل نادر حسن ، بی این ایف کے رہنما صفدرعلی سمیت
کئی افراد کوگرفتارکرکے ان پرانسداد دہشت گردی کےمقدمات قائم کیےگئےتھے۔ انہیں پاک
چین اقتصاددی راہداری منصوبے کےخلاف اقوام متحدہ کے دفتر میں یادداشت جمع کرنے سے
روک دیا گیا۔ پولیس نے جنگ آزادی کے ہیرو کے فرزند کو اقوام متحدہ کے دفتر کے
سامنے تشدد کا نشانہ بنایا۔ کرنل نادر اور دیگر رہنماوں کو چھ ماہ جوٹیال میں قائم
ایک سب جیل میں رکھنے کے بعد گزشتہ سال نومبر میں ضمانت پر رہا کیاگیا۔
حکومت کے اس رویے سےیہ تاثرعوام میں ابھررہا ہے
کہ وفاقی اسٹیبلشمنٹ مقامی آبادی کو دیوارسے لگا کرغیرمقامیوں کوان پر مسلط کرنے
کے لیےاوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہےتاکہ متنازع خطےکےحوالے سےاپنے من پسند نتائج
حاصل کرسکے۔
اس اقدام سے مسئلہ کشمیر کےحل سے متعلق حکومت
پاکستان کا دہرا معیارواضح ہوکرسامنے آیا ہے۔ ایک طرف وفاقی حکومت مسئلہ کشمیر کو
اقوام متحدہ کی قراردادوں اور متنازع خطے کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کا
مطالبہ کررہی ہے اور گلگت بلتستان کواس مسئلے سے جوڑ کو 70 سالوں سے لٹکا کررکھا
ہوا ہے، مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس کی بھرپور حمایت کررہی ہے، اس تمام عالمی
فورمز پر اس عزم کو ببانگ دہل دہرا رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف گلگت بلتستان میں مقامی
جماعتوں کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دینے سے گریزاں ہے۔ انہیں مختلف طریقوں سے
ہراساں کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ انہیں آزادانہ طور پر الیکشن میں حصہ لینےکی اجازت
بھی نہیں دی جارہی۔