Meltig Glaciers |
گلگت: پاکستان کے شمال میں موجود خطہ گلگت بلتستان ہمالیہ
قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں پر موجود گلیشیرز یعنی منجمد پانی کے زخائر
موسیماتی تبدیلیوں اورصنعتی ترقی سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی آلودگی کے باعث تیزی
کیساتھ پگھل رہے ہیں ۔جس سے پاکستان کے میدانی علاقوں بالخصوص پنجاب اور سندھ کے زرعی
شعبے کیساتھ پن بجلی کی پیداوار میں بھی کمی کا باعث بن رہی ہے۔ادارہ تحفظ ماحولیات
گلگت بلتستان کی ایک رپورٹ کے مطابق ہمالیہ ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں
میں مسلسل سالانہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث قدرتی گلیشیرز شدید خطرات سے
دوچارہوچکے ہیں۔جس کی وجہ سے ان گلیشیرز کے پکھلنے کے عمل میں تیزی کیساتھ بڑھتے
ہوئے درجہ حرارت سے ان گلیشیرز پر بڑے بڑے جھیلوں نے جنم لیا ہے ۔گلیشیرز پر بنے
والی ان جھیلوں کے پھٹ جانے سے سیلاب آتا ہے۔ اس کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کے
باعث بروقت گلیشیرز سے پانی کا نہ آنا یا وقت سے پہلے ان گلیشیرز سے پانی کا نکل
آنے سے فصل کی کاشت سے تیار ہونے تک اوقات میں تبدیلی اور کمی کیساتھ پھل کے پک
جانے کے اوقات میں بھی تبدیلی کیساتھ اس کے خراب ہونے والے واقعات قابل زکر ہے۔
محکمہ ماحولیات گلگت بلتستان کی رپورٹ کے مطابق
انڈس ریور سسٹم کو گلگت بلتستان میں واقع بڑے گلیشیرز سالانہ 50.5 بلین کیوبک میٹر
پانی فراہم کرتاہے جو کہ انڈس ریور سسٹم کا 72 فیصد ہوتاہے جو کہ ملک کے زراعت کے
شعبے کے 70 فیصد اور پن بجلی کے 40 فیصد ضروریات کو پورا کرتا ہے۔
یعنی گلیشیرز پر بنے والے جھیلوں کے پھٹ جانےاس وقت سب
سے زیادہ نقصان دیے رہا ہےاور وفاقی حکومت نے سسٹم کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی منصوبوں
کا آغاز کیا ہے
گلگت بلتستان میں موجود پہاڑی سلسلوں کے گلیشییرز
پر موسمی تبدیلی کے اثرات کا اندازہ ماہرین نے
اس طرح لگایا ہے کہ سال2010 کا
سیلاب کی ابتداء ان علاقوں سے ہوئی اور صرف گلگت بلتستان پلوں، پن بجلی گھروں،
سڑکوں اور آبپاشی کے نظام کو پہچنے والے نقصان کا تخمینہ 13 ارب روپے لگایا گیا۔
جس کے بعد اس سیلاب نے خیبرپختون خواہ کے بعد پنجاب اور پھر سندھ کے زرعی اراضی کو
تباہ کرتے ہوئے سندھ کے رہائشی علاقوں میں ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک پانی داخل
رہا۔
ماہر ماحولیات ڈاکٹر اے ڈبلیو جسرا سے جب گلگت
بلتستان میں موسیماتی تبدیلیوں کے اثرات کے حوالے سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے
بتا یا کہ تین بڑے پہاڑی سلسلوں میں موجود گلشیرز پر بڑنے والے اثرات کو کم نہ کیا
گیا تو پاکستان ، بھارت، نیپال، بھوٹان سمیت علاقے میں بہنے والے کئی دریاؤں کا مستقبل
خطرے سے دوچار ہوگا جس سے ان ممالک کے زرعی اور تونائی کے شعبے کو شدید خطرات لاحق
ہونگے۔
گلیشیرز پر بنے والی جھیلوں GLOF کے پائلیٹ پراجیکٹ جو کہ گلگت شہر سے 35 کلومیٹر مشرق شمال میں موجود بگروٹ
ویلی میں کام کررہی ہے کے پرجیکٹ منیجر سیدزاہد حسین سے گلیشیرز کو پہچنے والے
نقصانات کے حوالے سے بتایا کہ رواں سال بگروٹ ویلی میں ایک گلیشائی جھیل کے پھٹ
جانے سے نہ صرف وادی میں پل کو بہاکر لے گئی اوراس کیساتھ مقامی لوگوں کے زرعی
اراضی کیساتھ کھڑی فصلوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ اسطرح بالائی ہنزہ کی تحصیل گوجال
میں حسینی گلیشیز کے پھٹ جانے سے زیرتعمیر شاہراہ قراقرم کے ایک حصے کو بہاکر لے گیااور
ایک ماہ تک اس شاہراہ پر پاکستان اور چین کے مابین زمینی آمدورفت بھی بری طرح
متاثر ہوئی بلکہ دونوں ممالک کے مابین تجارت کاپہیہ بھی رک گیا۔
ماہرین ماحولیات گلگت بلتستان کے پہاڑی سلسلوں کے قریب صنعتی شہروں
کی ماحولیاتی آلودگی پر
کنٹرول کرنے کی سفارشات کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ
ہمالین پہاڑی سلسلے چونکہ صنعتی شہروں کے قریب ہیں اس لئے ہمالیہ کے سلسلوں میں
موجود گلیشیرز پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معشیت کے اہم ترین ستون
زراعت اور تونائی کے شعبے کے مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکے۔ دوسری جانب ان پہاڑی سلسلوں
کے خطے کو ماحولیاتی اثرات سے روکنے کے لئے محکمہ ماحولیات گلگت بلتستان نے
موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ایکٹ 2014 گلگت بلتستان کا مسودہ تیار کیا ہے اور اسکی
منظوری کے لئے قانون ساز اسمبلی میں پیش کریگی اس ایکٹ کی منظوری سے گلگت بلتستان
وہ علاقے جو کہ تیزی کیساتھ رولرز سے اربن کی جانب بڑھنے والے علاقوں میں
ماحولیاتی آلودگی پر کنٹرول کرنے سے بھی یہاں کے قدرتی گلیشیرز کو پہچنے والے
نقصان کو کم کیا جاسکتا ہے۔ منظر شگری، ٹی این این
Comments
Post a Comment