ویڈیو میں جلتی ہوئی بسیں اور شیعوں کی شناخت معلوم کرنے کے لیے مسافروں سے سوال و جواب اور ان کا جسمانی معائنہ دکھایا گیا ہے۔
ویڈیو میں ایک ادھیڑ عمر باریش شخص سے دہشت گرد پوچھتے ہیں کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے اور گلگت بلتستان کیوں جا رہا ہے۔ پھراس کی پیٹھ پر زخم کے نشان دیکھنے کے لیے ان کی قمیص اوپر کر دیتے ہیں تاکہ پتا چلے کہ وہ شیعہ ہے کہ نہیں۔
ٹویٹر پیغامات
تقریباً ڈیڑھ منٹ کی اس ویڈیو میں شیعہ مخالف اورگلگت بلتستان کے وزیرِ اعلیٰ کے خلاف نعروں کی آوازیں بھی آتی ہیں۔
پاکستانی اخبار ڈان کے کالم نگار عباس ناصر نے اس ویڈیوکے بارے میں سترہ اگست کو اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا ’میں سفید داڑھی والے شخص کے چہرے پر گھبراہٹ کے تاثرات کو اپنے ذہن سے نہیں نکال سکتا۔‘
انتونی پرمال نے اپنے مائیکرو بلاگ پر لکھا، ’ہم نے رمضان کے معنی ہی بدل ڈالے ہیں۔ برداشت؟ شیعہ کے لاش پر عید مبارک۔‘
پاکستان تحریکِ انصاف کی رہنما شیرین مزاری نے ٹویٹر پر لکھا، ’حکومت شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہے جس کے ساتھ شیعوں کو نشانہ بنا کے قتل کرنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہاہے‘۔
ٹویٹر کو استعمال کرنے والے بعض لوگوں نے شیعہ رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ شیعوں کو دہشت گردی سے بچانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔
طارق فاتح نے لکھا، ’یہ عجیب نہیں لگتا سنی پاکستانی شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں اور شیعہ مسلمان اسرائیل کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ بی بی سی
Comments
Post a Comment