حسین حقانی صدرزرداری کےخلاف وعدہ معاف گواہ بن سکتےہیں
میموگیٹ اسکینڈل کےمنظرعام پرآنےکےبعدپاکستان کےسیاسی حلقوں میں جوہلچل پیداہوئی ہےاس کی شدت میں وقت گزرنےکےساتھ ساتھ انتہائی تیزی سےاضافہ ہورہاہے۔لگتاہےکہ اس سےجان چھڑانےکےلیےدی گئی حسین حقانی کی قربانی بھی انقریب صدرزرداری کےگلےمیں پھنسنےوالی
ہے۔
ہے۔
پاکستانی نژادامریکی بزنس مین منصوراعجازنےفنانشل ٹائمزمیں لکھےگئےایک مضمون میں انکشاف کیاتھاکہ ایبٹ آبادآپریشن کےبعد انہوں نے امریکامیں پاکستانی سفیرحسین حقانی کاایک میموامریکی فوج کےسربراہ مائیک مولن کوپہنچایاتھاجس میں پاکستان کےایٹمی اثاثوں تک براہ راست رسائی، القاعدہ اورطالبان کےخلاف سخت اقدامات،فوج میں اعلیٰ پیمانےپرتبدیلی اورچنددیگراہم معاملات میں مکمل تعاون کی پیشکش کی گئی تھی۔پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت نےشروع میں میموکےوجودسےہی انکارکردیاتاہم وقت گزرنےکےساتھ ساتھ اس سلسلےمیں جواقدامات کیےگئےوہ خودحکومت کےخلاف چارج شیٹ ثابت ہورہےہیں۔
حسین حقانی کوبرطرف کرکےپارلیمانی کمیٹی کےذریعےتحقیقات کااعلان کرتےہوئےشایدصدرزرداری اوروزیراعظم گیلانی کاخیال تھاکہ اس طرح سےوقتی طورپرمعاملےکولٹکایادیاجائےگااورآہستہ آہستہ اس کی شدت کوزائل کرکےتحقیقات کےمن پسندنتائج حاصل کیےجائیں گے۔اسی طرح حسین حقانی کوبھی بےگناہ ثابت کیاجائےگا۔لیکن معاملےکےسپریم کورٹ جانےکےبعدصورتحال میں ڈرامائی تبدیلی آناشروع ہوگئی۔اچانک ہی صدرزرداری مختلف جان لیوابیماریوں میں مبتلاہوکردبئی منتقل ہوچکےہیں جہاں سےان کی واپسی کےبارےمیں متضادخبریں مل رہی ہیں۔تاہم یہ حقیقت ہےکہ صدرزرداری کےواپس آنےیانہ آنےسےپاکستان کےموجودہ سیاسی ماحول پرکوئی خاص فرق نہیں پڑےگا۔پیپلزپارٹی نےباقاعدہ اعلان کیاہےکہ میمواسکینڈل کی عدالتی تحقیقات نہیں ہونی چاہییں ۔پھربھی تحقیقات ہوئیں تونہ صرف ان کےشریک چیرمین سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوں گےبلکہ سپریم کورٹ سےمتوقع فیصلےکوبھی نہیں مانیں گے۔ادھروفاقی حکومت نےسپریم کورٹ کی آئینی حیثیت کوچیلنج کرتےہوئےیہ موقف اختیارکیاہےکہ سپریم کورٹ میموکیس کی سماعت نہیں کرسکتی۔اپنےدفاع میں پیپلزپارٹی نےتحقیقات میں رکاوٹیں ڈالنےکاجوسلسلہ شروع کیاہےاس سےایساتاثرابھرتاہےکہ میموایک حقیقت ہے،اسےخفیہ رکھنےکےلیےجواقدامات کیےگئےتھےوہ ناقص ثابت ہوئےاور بھانڈا پھوڑے جانےکےبعدپیپلزپارٹی بوکھلاہٹ میں بغاوت کی جودھمکیاں دےرہی ہےوہ وقتی طورپرمقتدرحلقوں میں بےچینی کاسبب بن سکتی ہیں تاہم سپریم کورٹ کی آزادانہ تحقیقات کی صورت میں یہ دھمکیاں ریت کی دیوارثابت ہوسکتی ہیں۔
قانونی ماہرین کےمطابق میموگیٹ اسکینڈل میں ملوث افرادآئین کےآرٹیکل 6کی خلاف ورزی کامرتکب ہوئےہیں جس کی سزاموت بھی ہوسکتی ہے۔اس اسکینڈل کاایک اہم کردار ملک سےفرارہوکراس سزاسےچھٹکارہ حاصل کرچکاہے۔ لیکن دوسرےکردارکےمستقبل کاتعین سپریم کورٹ کی تحقیقات کےبعدہوگا۔ایسےحالات میں پاکستان میں وعدہ معاف گواہ کاآپشن بھی ہمیشہ موجودرہتاہے۔
قانونی ماہرین کےمطابق میموگیٹ اسکینڈل میں ملوث افرادآئین کےآرٹیکل 6کی خلاف ورزی کامرتکب ہوئےہیں جس کی سزاموت بھی ہوسکتی ہے۔اس اسکینڈل کاایک اہم کردار ملک سےفرارہوکراس سزاسےچھٹکارہ حاصل کرچکاہے۔ لیکن دوسرےکردارکےمستقبل کاتعین سپریم کورٹ کی تحقیقات کےبعدہوگا۔ایسےحالات میں پاکستان میں وعدہ معاف گواہ کاآپشن بھی ہمیشہ موجودرہتاہے۔
مصدقہ میڈیارپورٹس کےمطابق 6نومبرکوصدرزرداری کی دبئی روانگی کےوقت ایئرپورٹ پراس وقت دلچسپ صورتحال پیداہوئی جب حسین حقانی بھی صدرزرداری کےجہازمیں سوارہوگئے۔انہیں آف لوڈکرانے کےلیےصدرزرداری کوفوری طبی امدادکےبہانےواپس ایوان صدرمنتقل ہوناپڑا۔میڈیانےاس واقعےکوصدرکےایک فوجی اسپتال میں داخلےکےطورپرپیش کیاتاہم بعدمیں حقیقت منظرعام پرآگئی اوریہ واضح ہوگیاکہ حسین حقانی اس بات پرپریشان تھےکہ جس لیڈر کےکہنےوالےانہوں نےمیمولکھوانے اورپھرواپس پاکستان آنےکاخطرہ مول لیاتھاوہ انہیں تنہاچھوڑکرفرارہورہےہیں۔ادھرآرمی اورآئی ایس آئی کوایک ایساشکارہاتھ لگاہےجس کی تلاش میں وہ طویل عرصےسےسرگردان تھے۔ایسی صورتحال میں حسین حقانی کوایک بارپھراپنےباس کےنقش قدم پرچلناہوگا۔۔یعنی راہ فرار۔۔لیکن ملک سےنہیں ۔صرف میموکیس سے۔
یہ حقیقت ہےکہ فوج ،آئی ایس آئی،ملائیت اوردہشت گردی کےخلاف اپنی تحریروں کےباعث حسین حقانی فوجی حلقوں میں ناپسندیدہ شخصیت کےطورپرجانےجاتےہیں لیکن ان تحریروں کےباعث ان پرغداری کاالزام پہلےکبھی نہیں لگا۔سیاسی حلقوں میں ان کےخیالات ایک بہترپاکستان کےلیےناگزیرسمجھےجاتےہیں۔یہ بات قابل غورہےکہ ایڈمرل مائیک ملن کولکھےگئےمیمومیں جوپیشکش کی گئی ہےوہ ایک سفیرکےاختیارمیں ہرگزنہیں بلکہ اعلیٰ ریاستی سطح کےہیں۔اب جبکہ صدرزرداری انہیں تنہاچھوڑکرراہ فراراختیارکرچکےہیں۔حسین حقانی کےپاس زرداری کاساتھ دینےکاکوئی اخلاقی جوازباقی نہیں رہتا۔
یہ حقیقت ہےکہ فوج ،آئی ایس آئی،ملائیت اوردہشت گردی کےخلاف اپنی تحریروں کےباعث حسین حقانی فوجی حلقوں میں ناپسندیدہ شخصیت کےطورپرجانےجاتےہیں لیکن ان تحریروں کےباعث ان پرغداری کاالزام پہلےکبھی نہیں لگا۔سیاسی حلقوں میں ان کےخیالات ایک بہترپاکستان کےلیےناگزیرسمجھےجاتےہیں۔یہ بات قابل غورہےکہ ایڈمرل مائیک ملن کولکھےگئےمیمومیں جوپیشکش کی گئی ہےوہ ایک سفیرکےاختیارمیں ہرگزنہیں بلکہ اعلیٰ ریاستی سطح کےہیں۔اب جبکہ صدرزرداری انہیں تنہاچھوڑکرراہ فراراختیارکرچکےہیں۔حسین حقانی کےپاس زرداری کاساتھ دینےکاکوئی اخلاقی جوازباقی نہیں رہتا۔
Comments
Post a Comment