گلگت بلتستان میں فرقہ واریت سےاجتناب وقت کی اہم ضرورت ہے(اداریہ)
ویسےتوانتہاپسندی،شدت پسندی، عدم برداشت اورجنونیت کےلحاظ سےجنوبی ایشیاپوری دنیامیں مشہورہےلیکن گلگت بلتستان اس لحاظ سےجنوبی ایشیاکےدیگرممالک کوپیچھےچھوڑتاجارہاہے۔گزشتہ روزنگرسےتعلق رکھنےوالےسینکڑوں انتہاپسندوں کی گوجال میں کی گئی درندگی اس کاواضح ثبوت ہے۔اسے دیکھ کر1988کےجلال آبادسانحےکی یادایک بارپھرتازہ ہوگئی ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں سےگلگت بلتستان کےعوام نفرت ،تعصب اوراختلافات کےجس دلدل میں پھنسےہوئےہیں اس کی وجہ خالصتاًفرقہ واریت ہے۔اگرچہ فرقہ واریت کی بنیادقیام پاکستان کےبعدقائداعظم محمدعلی جناح کی زندگی میں ہی رکھی گئی تھی اورخودقائداعظم کی ذات اس سےمحفوظ نہیں رہ سکی۔ظاہرہےگلگت بلتستان اس سےکیسے محفوظ رہ سکتاتھا۔تاہم اس تعصب کےنتجےمیں پیداہونےوالی نفرت اس قدرشدید نہیں تھی جو1988کےبدترین فرقہ وارانہ فسادات کےبعد پیداہوئی ہے۔1988میں گلگت بلتستان میں شعیہ سنی فسادات کےنتیجےمیں ہزاروں افرادہلاک ہوگئےتھے۔ اگرچہ ان فسادات سےگلگت بلتستان کےطول وعرض میں مقیم دونوں فرقوں کےلوگ متاثرہوئےلیکن سب سےدلخراش اورناقابل فراموش واقع جلال آبادکاتھاجہاں خیبرپختونخواسےآئےہوئےہزاروں دہشت گردوں نےتباہی مچادی ۔دہشت گردوں نےسینکڑوں شیعہ مردوں،عورتوں اوربچوں کاقتل عام کیااوراملاک کوبھی شدیدنقصان پہنچایا۔ظلم اوربربریت کاجومظاہرہ جلال آبادمیں کیاگیااس کی دکھ بھری داستانیں تاریخ میں رقم ہوچکی ہیں۔
گوجال میں گزشتہ روزاسماعیلی کمیونٹی سےتعلق رکھنےوالی عورتوں،بچوں اوربڑھوں کوسٹرکوں پرگھسیٹ کرتشددکانشانہ بنانےسےقبل نگرسےتعلق رکھنےوالےان شرپسندوں کوصرف ایک باریہ سوچناچاہیےتھاکہ 1988میں جلال آبادکےسینکڑوں بےگناہ خواتین،بچوں اورمردوں پرکیاگزری ہوگی جب خیبرپختونخواکےدرندہ صفت دہشت گردوں نےانہیں گھروں سےگھسیٹ کرموت کےگھاٹ اتاردیا۔دہشت گردوں کی انسانیت سوزکارروائی سےنہ شیعوں کی آبادی ختم کی جاسکی اورنہ ہی انہیں اپنےمذہبی عقائدکی بجاآوری سےروکاجاسکا۔الٹااس کااثریہ ہواکہ شعیہ آبادی اس علاقے میں مزیدمضبوط ہوئی اوراس میں اتحاد کانیاجوش پیداہوا۔لیکن گلگت بلتستان کی مجموعی صورتحال پراس کےانتہائی منفی اثرات مرتب ہوئےہیں۔اس قسم کےسانحات کےبعدمتحارب گروپوں کےدرمیاں محبت،ہم آہنگی،اتحادواتفاق اورسب سےبڑھ قومی وعلاقائی وحدت کی سوچ قدرتی طوراپنی افادیت کھودیتی ہے اوراس کی جگہ نفرت،تعصبات،اختلافات اورعدم برداشت لےلیتی ہےجس کی چکی میں قوم نسل درنسل پستی جاتی ہے۔بدقسمتی سےیہی کچھ گلگت بلتستان میں اس وقت ہورہاہے۔
گوجال کاواقع حادثاتی نہیں بلکہ اس نفرت ،بغض اورفتنےکا عملی مظاہرہ ہےجوگزشتہ چند دہائی کےدوران نااہل قیادت کی متعاصبانہ،جاہلانااورلالچانہ فیصلوں کےباعث ہمارےدل ودماغ میں سرائیت کرچکی ہے۔ان رویوں کی روشنی میں ہم مستقبل کےبارےمیں اندازہ لگائیں توکوئی حوصلہ افزانقشہ ابھرکرسامنےنہیں آرہاہے۔بلکہ یہ کہنابےجانہ ہوگاکہ آنےوالی نسلیں موجودہ نسل سےکئی گنازیادہ وحشت ناک اورشدت پسندہوں گی۔
عمومایہ دیکھاگیاہےکہ علاقےکےمعتبراورقابل احترام شخصیات اس قسم کی سانحات کی ذمےدارچندشرپسندعناصرپرڈال خودکوبری الذمہ قراردےدیتی ہیں۔یہ اپنےمخالفین کوسبق سکھانےکےبعد اپناساکھ بچانےکافرسودہ طریقہ ہے۔اس حقیقت سےکوئی انکارنہیں کرسکتاکہ کوئی بھی شخص اتناآزادنہیں ہوتاکہ وہ معاشرےکوآگ کےدریامیں دھکیلتےہوئےکسی سےمشورہ کرنےکی ضرورت محسوس نہ کرے۔اورحسینی پرتوکسی ایک شخص نےنہیں بلکہ پورےچارسوافرادنے حملہ کیاتھا۔شرپسندوں کواگرکسی اہم شخصیت کی حمایت حاصل نہیں تھی توان کےخلاف ایف آئی آردرج کرانے سےگریزکیوں کیاگیا۔بحرحال جوبھی ہوااب گوجال اورنگرکےمکینوں کےدرمیان صلح ہوچکی ہے۔امیدکی جاسکتی ہےکہ فریقین کےدرمیان جومعاہدہ طےپایاہےکسی ناخوشگوارواقعے کےبغیراس پرعمل درآمدہوگی اوراختلافات ختم ہوجائیں گے۔ضرورت اس امرکی ہےکہ کسی بھی تنازعے کےحل کےلیےہتھیاراٹھانےیاتشددکاراستہ اختیارکرنےکےبجائےٹھنڈےدماغ سےکام لیں اوراپنےماضی اورحال پرنظرڈالتےہوئےکوئی بھی ایسا قدام اٹھانےسےگریزکریں جس سےہمارےمستقبل پرتباہ کن اثرات مرتب ہوسکتےہیں۔ اپنی سوچوں میں اس قسم کی مثبت تبدیلیوں کےذریعےہی ہم تعصبابہ،منافقانہ اورمفادپرستانہ سوچ سےچھٹکاراحاصل کرسکتےہیں۔محفوظ،روشن اورتابناک مستقبل کایہی راستہ ہےنہ کہ فتنہ وفساد۔۔
Comments
Post a Comment