غذر: چیرمین بالاورستان نیشنل فرنٹ نوازخان ناجی نےجی بی ایل اے غذرحلقہ ایک کےضمنی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی۔غیرسرکاری وغیرحتمی نتائج کےمطابق نوازخان ناجی نے8356ووٹ حاصل کیےجبکہ ان کےحریف حکمران جماعت پیپلزپارٹی کےجواہرعلی نے4533اورمسلم لیگ(ن)کےکرنل (ر)کریم خان نے5056ووٹ لیے۔
ڈوگرہ راج سےآزادی کےبعد یہ پہلاموقع ہےکہ دفاعی لحاظ سےاہم ترین اورمتنازعہ خطہ گلگت بلتستان میں کسی آزادی پسند جماعت کاامیدوارنہ صرف کامیاب حاصل کی ہے بلکہ بڑی وفاق پرست جماعتوں کےامیدواروں کوبھاری مارجن سے شکست سےدوچارکرنےمیں کامیاب ہواہے۔اس سےقبل نوازناجی اسی نشست پرتین مرتبہ قانون ساز اسمبلی اورایک مرتبہ ڈسٹرکٹ کونسل کاانتخاب لڑچکےہیں تاہم انہیں کسی ایک انتخاب میں بھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔قانون سازاسمبلی کےانتخابات میں ان کامقابلہ پیپلزپارٹی کےناقابل شکست اورعلاقے کی انتہائی بااثرشخصیت پیرکرم علی شاہ سےہوتارہاہے۔جن میں پیرکرم علی شاہ مسلسل کامیابی حاصل کرتےرہےہیں تاہم نومبر٢٠٠٩کےعام انتخابات میں انہیں نوازناجی کےہاتھوں شدیدہزیمت کاسامناکرناپڑالیکن الیکشن کمیشن کےمتنازعہ فیصلےکےنتیجےمیں نواز ناجی کوناکام قراردیاگیاجس کےخلاف بی این ایف نےشدید احتجاج کیا۔احتجاجی مظاہروں کےدوران سیکیورٹی فورسزکی فائرنگ سےبی این ایف کااایک کارکن جاں بحق بھی ہوا۔رواں سال جنوری میں پیرکرم علی شاہ کےگورنرمقررہونےکےبعد یہ نشست خالی ہوگئی تھی جس پرہونےوالےضمنی انتخابات میں نوازناجی کونسبتاکمزورامیدواروں کاسامناکرناپڑا۔
نومبر٢٠٠٩کےعام انتخابات میں بی این ایف کےدوسرے دھڑے،جس کی قیادت عبدالحمیدخان کررہےہیں،نےپورےگلگت بلتستان سےپانچ سےزائدامیدوار کھڑےکیےتھےلیکن کوئی ایک امیدواربھی قابل ذکرووٹ حاصل نہ کرسکاجس کےباعث عوامی حمایت سے متعلق قوم پرست جماعتوں کےدعوؤں کوشدیدزک پہنچا۔ نوازناجی کی کامیابی کےبعدیقینی طورپر قوم پرست جماعتوں کا اعتماد بحال ہوگالیکن خودناجی کوایک نئےامتحان سےگزرناہوگاکیونکہ ایک طرف انہیں اپنی نظریاتی سیاست کوبرقرار رکھنا ہوگاجس کی بنیاد پرعوام نےانہیں بڑی سیاسی پارٹیوں پرترجیح دی ہےاوردوسری طرف قانون ساز اسمبلی میں پاکستان سےوفاداری کاحلف اٹھاناپڑےگا۔دیکھنایہ ہےکہ وہ اس امتحان میں کس طرح سرخروہوتےہیں کہ سانپ بھی مرجائےاورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
Comments
Post a Comment