مفتی صاحب نے روایتی لائن دوھرائی، عیاشیاں ختم کرو اخراجات پر کنٹرول کرو تقویٰ اختیار کرو اور اپنی آمدنی بڑھانے کے لئیے جدوجہد کرو معاملات بہتر ھوجائیں گے انشاءاللہ۔
مفتی صاحب یہاں جائز خواہشات دم توڑ چکی ہیں آپ عیاشی کی بات کر رہے ہیں، اخراجات صرف اتنے ہیں کے روح سے سانس کا رشتہ قائم رہے، میرے گھر میں بھوک ناچ رہی ھے آپ کہہ رہے ہیں کہ میں تقویٰ اختیار کروں، تقویٰ اختیار کرنے کے لئیے پلے کچھہ ھونا ضروری ھوتا ھے کہ میرے پاس ہیں تو دنیا بھر کی نعمتیں مگر میں تقویٰ اختیار کرتے ہوئے انتہائی سادی زندگی بسر کروں، تو میرے پاس تو تقویٰ اختیار کرنے کے لئیے بھی کچھہ نہیں ہے، حدیث ھے کہ مفلسی کفر تک لے جاتی ھے، بھوکے آدمی کا تو کوئی مذہب ہی نہیں ھوتا، اور آپ مجھے تقوے کا درس دے رہے ہیں.
صبح منہ اندھیرے گھر سے نکلتا ہوں اور رات اندھیرے میں ہی گھر لوٹتا ہوں سارے دن کی مشقت اس قابل نہیں چھوڑتی کہ کوئی اور کام کر سکوں اور نہ ہی ٹائم بچتا ھے کسی دوسرے کام کے لئیے، بیروزگاری اتنی پھیل گئی ھے کہ مالک سے تنخواہ بڑھانے کے لئیے کہتا ہوں تو وہ کہتا ھے زیادہ نخرے نہ دکھاو تم سے بھی کم تنخواہ میں لوگ کام کرنے کے لئیے تیار ہیں۔
گورنمنٹ نے کم از کم تنخواہ سات ہزار رکھی ھے مجھے تو پھر بھی دس ہزار تنخواہ ملتی ھے میں سوچتا ہوں کے جب میرا دس ہزار میں گزارا ممکن نہیں تو سات ہزار والے کے لئیے کیسے ممکن ھوسکتا ھے؟۔ ایک کچی بستی میں کرائے کے مکان میں رہتا ہوں چار ہزار مکان کا کرایہ ھے، بجلی کا کم از کم بل دو ہزار روپے آتا ھے، گیس اور پانی کی مد میں پانچ سو روپے خرچ ھوجاتے ہیں، صرف انتہائی ضروری اشیاء خورد و نوش مہینے کے راشن میں شامل ہوتی ہیں جو کم از کم تین ہزار میں آتی ہیں، ناشتے میں مکھن ڈبل روٹی جیم وغیرہ کھائے ہوئے تو مدت ھوگئی بلکے مجھے اور میری بیوی کو تو اب ذائقہ بھی یاد نہیں کے مکھن اور جیم کا زائقہ کیسا ھوتا ھے، جبکہ مکھن جیم جیلی وغیرہ جیسی پر تعیش چیزیں تو میرے بچوں نے صرف ٹی وی پر ہی دیکھی ہیں وہ بھی پڑوسی کے گھر میں کہ ٹی وی خریدنے کی میری حیثیت نہیں۔
رات کی باسی روٹی چائے میں ڈبو کر کھا لیتے ہیں دودھہ چینی چائے کی پتی اتنی مہنگی ھوچکی ہیں کے صرف چائے کا وجود ناشتے میں شامل کرنے کے لئیے پندرہ سو روپے ماہوار خرچ کرنا پڑتا ھے، گھر سے فیکڑی تک جانے میں بس کے کرائے کی مد میں ہر روز پچاس روپے خرچ ھوتے ہیں جو کے تقریباَ پندرہ سو روپے ماہوار بنتے ہیں، پان سگریٹ یا کوئی اور نشہ میں نہیں کرتا کے میری دسترس میں ہی نہیں۔
(حدیث کا مفہوم) ہے کہ کوئی تمہیں دعوت دے تو تم ضرور جاو، مگر میں تو اس سعادت سے بھی محروم رہتا ہوں کہ کہیں شادی بیاہ میں جاونگا تو عزت کا بھرم رکھنے کے لئیے کچھہ تو دینا دلانا بھی پڑتا ہے جبکہ میرے پاس دینے کے لئیے صرف دعائیں ہوتی ہیں جو عزت بچانے کے لئیے ناکافی ہیں آج کے دور میں۔ مشقت اور مالی پریشانیوں کی وجہ سے ہر وقت ڈپریشن میں رہنے کی وجہ سے شوگر کا مرض لاحق ھوگیا ھے جسکا علاج کم از کم بھی دو ہزار روپے مہینہ نگل جاتا ھے۔
حدیث ھے کہ علم حاصل کرو چاہے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے، مگر میں تو گلی کے نکڑ پر جو اسکول ھے اس میں پڑھاتا ھوں بچوں کو اسکی بھی فیس ماہوار پانچ سو روپے بنتی ھے دو بچوں کے ہزار روپے ماہوار، نصاب اور یونیفارم کا خرچہ الگ ہے، کیونکہ گونمنٹ کے اسکولوں میں بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی نیت سے بھیجنا بیوقوفی ھے کیوں کے وہاں سے بچہ اور تو بہت کچھہ حاصل کرسکتا ھے مگر تعلیم نہیں۔
عید کے عید اپنے بیوی کے اور بچوں کے کپڑے بناتا ہوں کے ہر ماہ یا ہر دو تین ماہ بعد کپڑے خریدنا عیاشی کے مترادف ھے میری جیسی آمدنی والے کے لئیے، موبائل فون میرے پاس نہیں ھے کہ میری دسترس میں ہی نہیں ھے ویسے بھی مجھے اسکی ضرورت محسوس نہیں ھوتی کیوں کے میرے جیسے حالات رکھنے والوں کی خیریت دریافت کرنا کوئی گوارہ نہیں کرتا نہ ہی کسی کو مجھہ سے کوئی کام پڑتا ھے۔ پھل صرف بازاروں میں ہی دیکھتے ہیں ہم، دودھہ جیسی اللہ کی نعمت صرف چائے کے لئیے ہیں استعمال کرتے ہیں، گوشت صرف بقراء عید کے دنوں میں ہی میسر آتا ھے ہمیں، بکرے کو تو کبھی بغیر کھال کے دیکھا ہی نہیں میرے بچوں نے۔ دال اور سبزیاں بھی اتنی مہنگی ھوچکی ہیں کے اب تو وہ بھی عیاشی کے زمرے میں آچکی ہیں۔ روز مرہ کے اخراجات جیسے کے سبزی وغیرہ کے لئیے سو روپے روز خرچ ھوجاتے ہیں جو کے مہینے کے تین ہزار بنتے ہیں۔
مفتی صاحب اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کے میرے ان اخراجات میں اصراف کہاں ھے ؟ عیاشی کہاں ھے ؟ کہاں کا تقویٰ کیسی قناعت ؟ ان سارے اخراجات میں ناجائز کیا ھے ؟ مفتی صاحب، میری تنخواہ دس ہزار ھے اور یہ جو میں نے آپکو انتہائی جائز اخراجات گنوائے ہیں سالانہ اور ماہوار ملا کر اوسطاَ بیس ہزار روپے مہینہ بنتا ھے جبکہ میری آمدنی دس ہزار روپے مہینہ ھے یعنی ہر ماہ دس ہزار روپے کا فرق، بتائیے یہ فرق کیسے مٹایا جائے؟، آپ نائب رسول ہیں امت کی زمہ داری ہے آپ پر، میں آپ سے سوال کرتا ہوں کے ان حالات میں کیا حکم ھے اسلام کا میرے لئیے ؟ اور ان حالات میں بہ حیثیت مذہبی رہنما کیا زمہ داری بنتی ھے آپکی؟۔
میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اسلامی حدود کب اور کس معاشرے پر فافظ ھوتی ہیں ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہہ جنکا معاشی نظام آج سارے کفار ممالک میں نافظ ہے وہ نظام جس میں انسان تو انسان درختوں تک کا وظیفہ وقف تھا، وہ نطام تو ہمیں بتاتا ھے کہ حکومت کی زمہ داری ھے کہ اپنے شہری کی جان، مال، عزت، روٹی، روزی، تعلیم، صحت، یعنی تمام بنیادی ضرورتیں انشور کرے، مگر مجھے گورنمنٹ سے ان میں سے کوئی ایک چیز بھی نہیں مل رہی۔ قحط کے دوران حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہہ نے ہاتھہ کاٹنے کی سزا معاف کر دی تھی فرمایا کہ جب میں لوگوں کو روٹی نہیں دے سکتا تو مجھے انہیں سزا دینے کا بھی حق نہیں ھے۔ تو اگر ایسے معاشرے میں، میں اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کے لئیے یہ دس ہزار روپے ماہوار کا فرق مٹانے کے لئیے کوئی ناجائز زریعہ استعمال کرتا ھوں تو آپ مجھے بتائیں کے اسلام کا کیا حکم ھے میرے لئیے ؟اور بہ حیثیت نائب رسول آپکی کیا زمہ داری ہےِ؟۔
آپ جیسے سارے مذہبی اکابرین پاکستان کے مختلف شہروں میں ہر سال لاکھوں لوگوں کا اجتماع کرتے ہیں جس میں آپ بعد از مرگ کی زندگی کے بارے میں لوگوں کو بہت تفصیل سے بتاتے ہیں جہنم سے ڈراتے ہیں، مگر یہ جو سولہ کروڑ لوگ زندگی میں جہنم جھیل رہے ہیں انہیں آپ انکے جائز حقوق کے بارے میں آگہی کیوں نہیں دیتے؟ لوگ آپ کے منہ سے نکلی بات کو اہمیت دیتے ہیں اسے اپنے ایمان کا حصہ بناتے ہیں، (سلمان تاثیر کا قاتل ممتاز قادری اسکی زندہ مثال ہے)عوام کے اس اہم مسلے پر جس مسلے پر صحیح معنوں میں ایک عام آدمی کی جنت اور دوزخ کا دارومدار ہے اس اہم مسلے پر آخر آپ کیوں گورنمنٹ کو کوئی ڈیڈ لائن نہیں دیتے کہ یا تو عوام کو اسلام کے مطابق بنیادی حقوق دو ورنہ ہم ان لاکھوں لوگوں کو لے کر حکومتی اعوانوں میں گھس جائیں گے، میں نہیں مانتا کے آپ سے اتنی محبت کرنے والے لوگ آپکی اس آواز پر لبیک نہیں کہیں گے۔
کیا آپکی زمہ داری نہیں بنتی کے آپ حکومت وقت سے مطالبہ کریں کے اسلام کے مطابق کم از کم تنخواہ دس گرام سونے کے برابر ھونی چاہیے، چلیں دس گرام نہیں تو پانچ گرام سونے کے مساوی تنخواہ کا مطالبہ کردیں۔ کیا آپکی زمہ داری نہیں بنتی کہ آپ فتویٰ دیں کے پاکستان جیسے معاشرے میں حدود نافظ العمل نہیں ہیں۔
میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں مفتی صاحب یہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ لوگوں میں سے سولہہ کروڑ لوگوں کا مسلہ ہے اس پر اپکی یہ مجرمانہ خاموشی آپ کی زات پر اور آپ کے منصب پر سوالیہ نشان ھے، میں وہ غریب انسان ہوں جسکے لئیے حضور پاک صلی علیہ وسلم نے فرمایا ھے کہ مفلسی کفر تک لے جاتی ھے، آپ کے پیچھے کروڑوں لوگ چلتے ہیں آپ کی بات سنتے ہیں اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لوگوں کا حق بنتا ھے آپ پر کہ آپ اس بنیادی مسلے پر لب کشائی کریں فتویٰ دیں اور ان حالات میں اگر کوئی اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کے لئیے کوئی ناجائز زریعہ استعمال کرتا ھے تو اس کے لئیے شریعت کا کیا حکم ھے ؟.
یہ سب کہنے کے بعد وہ شخص خاموش ھوگیا اور مفتی صاحب کی طرف دیکھنے لگا، مفتی صاحب بولے تمہاری ہر بات ٹھیک ھے لیکن اب تم مجھہ سے کیا چاہتے ھو؟ میں آپ سے فتویٰ چاہتا ہوں کہ ایسے معاشرے میں حدود نافظ نہیں ھوتیں۔ یا تو گورنمنٹ پہلے عام آدمی کو اسلام کے مطابق تمام بنیادی سہولتوں سے آراستہ کرے پھر اگر وہ کوئی ناجائز زریعہ استعمال کرتا ھے روزی کمانے کا تو اسے سزا کا مرتکب قرار دے، اگر گورنمنٹ ایسا نہیں کرتی تو عام آدمی اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کے لئیے آزاد ہے کے وہ جو بھی زریعہ چاہے استعمال کرے، مفتی صاحب بولے میں ایسا نہیں کرسکتا اسطرح تو معاشرے میں انتشار پھیل جائے گا سارا نظام دھرم بھرم ھوجائے گا انارکی پھیل جائے گی۔
وہ شخص بولا مفتی صاحب سولہ کروڑ لوگوں کی زندگی تو اس وقت بھی انتشار کا شکار ہے، انکی زندگی میں انارکی تو ابھی بھی پھیلی ہوئی ہے، آپ کے فتوے سے تو صرف دس پرسنٹ لوگوں کی زندگی میں انتشار پھیلے گا اور یہ وہ ہی دس پرسنٹ لوگ ہیں جو نوے پرسنٹ کا حق مار رہے ہیں تو اگر آپ کے فتوے سے دس پرسنٹ کی زندگی میں انارکی پھیلتی ہے تو اسکا فائدہ تو نوے پرسنٹ لوگوں کو ملے گا یہ تو گھاٹے کا سودا نہیں ہے، اور ویسے بھی آپکا کام تو حق اور صحیح کی حمایت کرنا ہے کیا آپکو نہیں لگتا کے آپ کے اور آپ جیسے تمام علماء اور مفتی حضرات کے خاموش رہنے کا فائدہ لٹیروں کو مل رہا ہے؟۔
عام آدمی تو مسلسل تنزلی کا شکار ہورہا ہے وہ نا دین کا رہا نا دنیا کا، کبھی غور کیا آپ نے کہ ایک عام پاکستانی کی زندگی کا مقصد ہی صرف دو وقت کی روٹی کا حصول بن چکا ہے، زندگی جیسی قیمتی چیز کو لوگ موت کے حوالے کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، سوچیں اس ماں کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہوگی جو اپنے ہاتھہ سے اپنے بچوں کو موت کی نیند سلانے پر مجبور ہورہی ہے، عزت دار گھر کی لڑکیاں عصمت فروشی پر مجبور ہوگئی ہیں، جن ننھے ننھے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہییں ان ہاتھوں میں گاڑی کی اسکرین صاف کرنے کا وائپر ہے، یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں موبائل سم فری اور روٹی سات روپے کی ہے، کیا یہ انتشار نہیں ہے؟ کیا یہ انارکی نہیں ہے؟ کیا یہ سب ننگے حقائق آپکا دل دھلانے کے لئیے کافی نہیں ہیں؟ کیا بہ روز حشر آپ اللہ تعالی سے بھی یہ ہی کہیں گے کہ میں نے حق بات اسلئیے نہیں کہی کہ دس پرسنٹ لٹیروں کا نظام زندگی دھرم بھرم ہوجاتا انکی عیاشیاں ختم ہوجاتیں، دے سکیں گے آپ اللہ کے حضور یہ دلیل؟.
میں آپ کے آگے ہاتھہ جوڑ کے التجا کرتا ہوں کے آپ اور آپ جیسے تمام علماء اکرام مفتی حضرات جب سلمان تاثیر کے خلاف فتویٰ دے سکتے ہیں، جب سنی حضرات شیعہ حضرات کے خلاف اور شیعہ حضرات سنی حضرات کے خلاف کفر کا فتویٰ دے سکتے ہیں، جب فرقے اور مسلک کے نام پر فتویٰ دے سکتے ہیں، جب فون پر سلام کے بجائے ہیلو کہنے پر فتویٰ دے سکتے ہیں، جب کسی اداکار یا کسی اداکارہ کے خلاف فتویٰ دے سکتے ہیں، تو پھر سولہ کروڑ لوگوں کے جائز حق کے لئیے فتویٰ کیوں نہیں دیا جاسکتا ؟۔
مفتی صاحب بت بنے اسکی باتیں سنتے رہے اس اثناء میں وہ شخص جانے کے لئیے کھڑا ہوگیا اور بولا میرے ہر سوال کا جواب آپکی مجرمانہ خاموشی میں میں پنہاں ہے بس آپ سے اور آپکی علماء برادری سے آخری بات یہ ہی کہوں گا کہ اب بھی اگر آپ لوگوں نے سولہ کروڑ عوام کے اس مسلے پر مسجد کے منبر سے آواز حق بلند نہ کی تو ثابت ہوجائے گا کے آپ اور آپکی پوری علماء برادری بھی سولہ کروڑ عوام کی تباہی میں برابر کے شریک ہیں آپ بھی ان ہی دس پرسنٹ لٹیروں میں شامل ہیں، آپکو اور آپکی علماء برادری کو بھی سولہ کروڑ عوام کے اس اہم اور بنیادی مسلے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے پر برابر کا حصہ مل رہا ہے۔
یاد رکھئیے گا میری بات جس دن بھی عوام کے اندر پکا ہوا یہ لاوا پھٹا اس روز ان دس پرسنٹ مراعت یافتہ لوگوں کے ساتھہ ساتھہ عوام آپکی بھی پگڑیاں نہیں سر اچھالے گی۔ اس سے پہلے کہ مفتی صاحب مزید کچھہ کہتے وہ شخص کمرے سے جاچکا تھا۔
بشکریہfikepakistan
Comments
Post a Comment