گوجال کےعوام کس جرم کی سزابھگت رہےہیں
ہنزہ کےعلاقےعطاآبادمیں لینڈسلائیڈنگ کےواقعےکوایک سال مکمل ہونے کوہے۔اس لینڈسلائیڈنگ سےبننےوالی مصنوعی جھیل کےتباہ کن اثرات اگرچہ پورےگلگت بلتستان میں شدت کےساتھ محسوس کیےجارہےہیں لیکن گوجال کےمکین اس سانحےکےبعد جن مصائب کاشکارہوگئےہیں ان کی داستان ہی کچھ اورہے۔جون جولائی میں میڈیاکی موجودگی میں امدادی کارروائیوں کی خبریں سن کربحالی کی جوامیدیں پیداہوگئیں تھی ان کی شدت میڈیاکےجانے کےبعدکےساتھ ہی کم ہوناشروع ہوگئی تھی اب بحالی کی تمام امیدیں دم توڑچکی ہیں اورہرگزرتے لمحےکےساتھ گوجال کےمکینوں کے مصائب میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔ حکمران اس صورتحال کی بنیادی وجہ سرکاری وسائل کافقدان بتارہے ہیں،یہ دعویٰ حکومتی عدم توجہی کاایک پہلوہوسکتاہےلیکن تصویرکادوسرارخ انتہائی تلخ حقائق کی نشاندہی کرتاہے۔جن کاتانابانہ نام نہادانتخابی نظام کی انتقامی سیاست سےجاملتاہے۔
گوجال کی 25ہزارسےزائدنفوس پرمشتمل آبادی عطاآبادمیں لینڈسلائیڈنگ سے ببنے والےجھیل کےباعث گزشتہ ایک سال گلگت بلتستان کےدیگرعلاقوں سے کٹ کررہ گئی ہے۔شاہراہ قراقرم مکمل طورپرتباہ ہونےکےباعث لوگوں کی آمدورفت کاواحدذریعہ کشتی ہےجس میں ہنزہ اورگوجال کےدرمیان تقریباً20کلومیٹرطویل مسافت طےکرناپڑتا۔اگرچہ کشتی میں اتنی طویل مسافت طےکرناکسی بھی موسم میں کسی بھی شخص کےلیےاتناآسان نہیں ہوتا لیکن پھربھی گوجال کےجفاکش مکینوں نےبرداشت اورتحمل سےحالات کامقابلہ کیالیکن موسم سرما کی آمدکےساتھ کشتی کایہ طویل سفربھی ناممکن ہوچکاہے۔ جھیل کی وجہ علاقے کادرجہ حرارت معمول سے بڑھ کرمنفی 20ڈگری سینٹی گریڈسےبھی تجاوزکرچکاہے۔جھیل کاپانی کئی مقامات پرجم چکاہے۔جس کےباعث کشتی پرسفربھی انتہائی خطرناک ثابت ہورہاہے۔ گزشتہ ہفتے ایک مسافر کشتی جھیل میں برف کےبڑےٹکڑے سےٹکرانے سے8مسافرڈوب گئےتھے جنہیں خوش قسمتی سے بچالیاگیا۔اس صورتحال کےباعث کشتی سروس بھی جزوی طورپربند کردی گئی ہے اوراب گوجال کارابطہ دیگر علاقوں سے مکمل طور پر منقطع ہوچکاہےجس کےباعث اشیائےخوردنوش، ایندھن،صحت اورتعلیم کی سہولیات اوردیگرہرقسم کی ضروریات زندگی کا شدیدبحران پیداہوگیاہے۔بیماروں،بزرگوں،خواتین اوربچوں کوکسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں اسپتال پہنچانا ممکن نہیں رہا۔ہیں۔اگرچہ آغاخان نیٹ ورک کے ذیلی ادارے فوکس کےتحت انتہائی محدودپیمانےپر امدادی کارروائیاں جاری ہیں لیکن یہ اقدامات بالکل ناکافی ہیں۔دوسری طرف گزشتہ ایک سال سےشاہراہ قراقرم کےذریعے چین سےزمینی رابطہ منقطع ہونے سےنہ صرف گلت بلتستان میں تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثرہوئیں ہیں بلکہ تجارت سے وابستہ ہزاروں افرادکےبےروزگارہونے کی وجہ سےہزاروں گھروں کےچولہے بندہوچکے ہیں ۔ایسے میں بےتہاشہ مہنگائی جلتی پرتیل کاکام سرانجام دےرہی ہے۔
عطاآبادجھیل کوبھرنےسے روکنےکےلیےحکومتی سطح پرکئی اقدامات کیے جاسکتے تھےجن میں سرکاری وسائل کےاستعمال سےلےکرغیرملکی امدادوغیرہ شامل ہےلیکن حکومت کی انہتائی مجرمانہ غفلت کےباعث جھیل میں پانی کی سطح غیرمعمول حدتک بڑھ بڑھ گیاحتیٰ کہ گوجال کے بڑےگاؤں ششکٹ،حسین آباد اورتحصیل ہیڈکوارٹرگلمت سمیت کئی علاقے پانی میں ڈوب گئےجس میں بڑے پیمانے پررہائشی مکانات اورزرعی اراضی تباہ ہوگئی۔گوجال کے لوگوں نےسیاسی قیادت اورحکام کی توجہ اس تباہی کی جانب مبذول کرانے کےلیےہردروازہ کھٹکھٹایالیکن شنوائی نہیں ہوئی۔جون میں جھیل کےپانی کی سطح میں غیرمعمولی اضافے کے باعث گوجال میں انسانی المیہ جنم لینے لگاجسےقومی اوربین الاقوامی میڈیانےبھرپورطریقےسے کوریج دیناشروع کردیا۔میڈیاکی بھرپورکوریج پرصوبائی اوروفاقی حکومت اس المیے کی جانب توجہ مرکوزکرنےپرمجبورہوگئی تاہم یہ توجہ صرف اسی عرصے تک جاری رہی جب تک الیکٹرانک میڈیا وہاں موجودرہا۔ہوناتویہ چاہیےتھاکہ جھیل سےپانی کےمکمل اخراج اورمتاثرین کی مکمل بحالی تک امدادی سرگرمیاں جاری رہتیں اورسردیوں کےآنے سے پہلےشاہراہ قراقرم کوبحال کرکےگوجال کارابطہ گلگت بلتستان کےدیگرعلاقوں سےبحال کردیاجاتا۔اس مقصدکےلیےجھیل سےپانی کےاخراج کےلیےبنائےگئےاسپل وے کوتوسیع دیناچاہیے تھاجس کےلیےوہاں مزیدانجیئرزبھیجنے اورضرورت پڑنے پراس سلسلے میں چین سےمددطلب کرنے کی ضرورت تھی لیکن تمام ترامدادی کارروائیاں سازشی اورشہرت کی دلدادہ سیاسی قیادت کی عدم دلچسپی کےنذرہوگئیں اورجھیل کے اسپل وےپرکام کرنے والے انجینئرزبھی بوریابسترگول کرکےرفوچکر ہوگئے۔جولائی میں صدرزرداری کےدورہ چین کےبعداس مسئلے کےحل کے لیے سنجیدہ کوششوں کی خبریں سامنے آگئیں جن میں کہاگیاکہ جھیل سے متعلق چینی حکومت کی تجاویزکوپاکستان نے تسلیم کرلیاہے اوربہت جلد اس پرکام شروع ہو جائےگا۔لیکن ایک بارپھریہ خبریں حکومت کی پراسرارخاموشی اورسازشی سیاست کےگرداب میں دب کررہ گئیں۔
عطاآبادجھیل کوبھرنےسے روکنےکےلیےحکومتی سطح پرکئی اقدامات کیے جاسکتے تھےجن میں سرکاری وسائل کےاستعمال سےلےکرغیرملکی امدادوغیرہ شامل ہےلیکن حکومت کی انہتائی مجرمانہ غفلت کےباعث جھیل میں پانی کی سطح غیرمعمول حدتک بڑھ بڑھ گیاحتیٰ کہ گوجال کے بڑےگاؤں ششکٹ،حسین آباد اورتحصیل ہیڈکوارٹرگلمت سمیت کئی علاقے پانی میں ڈوب گئےجس میں بڑے پیمانے پررہائشی مکانات اورزرعی اراضی تباہ ہوگئی۔گوجال کے لوگوں نےسیاسی قیادت اورحکام کی توجہ اس تباہی کی جانب مبذول کرانے کےلیےہردروازہ کھٹکھٹایالیکن شنوائی نہیں ہوئی۔جون میں جھیل کےپانی کی سطح میں غیرمعمولی اضافے کے باعث گوجال میں انسانی المیہ جنم لینے لگاجسےقومی اوربین الاقوامی میڈیانےبھرپورطریقےسے کوریج دیناشروع کردیا۔میڈیاکی بھرپورکوریج پرصوبائی اوروفاقی حکومت اس المیے کی جانب توجہ مرکوزکرنےپرمجبورہوگئی تاہم یہ توجہ صرف اسی عرصے تک جاری رہی جب تک الیکٹرانک میڈیا وہاں موجودرہا۔ہوناتویہ چاہیےتھاکہ جھیل سےپانی کےمکمل اخراج اورمتاثرین کی مکمل بحالی تک امدادی سرگرمیاں جاری رہتیں اورسردیوں کےآنے سے پہلےشاہراہ قراقرم کوبحال کرکےگوجال کارابطہ گلگت بلتستان کےدیگرعلاقوں سےبحال کردیاجاتا۔اس مقصدکےلیےجھیل سےپانی کےاخراج کےلیےبنائےگئےاسپل وے کوتوسیع دیناچاہیے تھاجس کےلیےوہاں مزیدانجیئرزبھیجنے اورضرورت پڑنے پراس سلسلے میں چین سےمددطلب کرنے کی ضرورت تھی لیکن تمام ترامدادی کارروائیاں سازشی اورشہرت کی دلدادہ سیاسی قیادت کی عدم دلچسپی کےنذرہوگئیں اورجھیل کے اسپل وےپرکام کرنے والے انجینئرزبھی بوریابسترگول کرکےرفوچکر ہوگئے۔جولائی میں صدرزرداری کےدورہ چین کےبعداس مسئلے کےحل کے لیے سنجیدہ کوششوں کی خبریں سامنے آگئیں جن میں کہاگیاکہ جھیل سے متعلق چینی حکومت کی تجاویزکوپاکستان نے تسلیم کرلیاہے اوربہت جلد اس پرکام شروع ہو جائےگا۔لیکن ایک بارپھریہ خبریں حکومت کی پراسرارخاموشی اورسازشی سیاست کےگرداب میں دب کررہ گئیں۔
مختلف زاویوں سےدیکھاجائےتو گوجال کےمکین مذہبی،لسانی ،نسلی اورانتخابی امتیازکا بری طرح شکارنظرآتے ہیں۔صدیوں سے میرزآف ہنزہ کے استحصالی رویوں کاشکاررہنےکےبعدذوالفقارعلی بھٹوکونجات دہندہ سمجھنےوالے گوجال کےمکین دورجدیدمیں پیپلزپارٹی کےانتخابی سازشوں کاشکارہوکررہ گئے ہیں۔ضلع ہنزہ نگرکی تحصیل گوجال رکن قانون سازکونسل جناب وزیربیگ کےحلقہ انتخاب میں شامل ہےجواس وقت اسپیکرقانون ساز کونسل کےساتھ ساتھ قائم مقام گورنرکےعہدے پرمتکمن ہیں۔ 2008کےانتخابات میں انہوں میں معمولی مارجن سے ایم کیوایم کےامیدوارسےکامیابی حاصل کی جس کےبعدان پردھاندلی کےالزامات بھی لگائے گئے۔ان انتخابات کےبعدایم کیوایم،مسلم لیگ(ن)،مسلم لیگ(ق)،جےیوآئی(ف) اوردیگرسیاسی جماعتوں کےامیدوارنےالزام لگایا کہ پیپلزپارٹی نےاپنے امیدواروں کاجتانے کےلیےدھاندلیوں اورانتخابی قوانین کی خلاف ورزیوں کانیاریکارڈقائم کیاہے۔الیکشن کی مانیٹرنگ کرنے والی غیرجانبدارتنظیموں نے ان الزام کی تصدیق کی اوراس بات پرتشویش کااظہارکیاکہ وزیراعظم گیلانی نے پی پی کےامیدواروں کوکامیاب کرانےکےلیےانتخابی قوانین کی دھجیاں بکھیردیں۔سرکاری وسائل کابےدریغ استعمال کیاگیا۔ترقیاتی منصوبوں کےوعدےکیےگئے،سرکاری مشنری ،بیت المال اوربینظیربھٹوانکم سپورٹ پروگرام کےفنڈزانتخابی مہم کےلیےاستعمال کیےگئے۔یہ الزامات پیپلزپارٹی کےدیگرامیدواروں کی طرح وزیربیگ پرلگےجن کاٹرن آوٹ گوجال میں نہ ہونے کےبرابررہا۔سوال یہ پیداہوتاہےکہ کیامقامی حکومت بروقت کارروائی کرکےگوجال کےمکینوں کوجھیل کی تباہ کایوں سےنجات دلاسکتی تھی؟؟کیامقامی حکومت جھیل ببنےکےبعدبھی اسپل وےکوتوسیع دےکرگوجال کارابطہ ملک کےدیگرعلاقوں کےساتھ بحال کرسکتی تھی؟ کیاسردیوں آنے سے پہلے متاثرہ علاقوں میں ضروریات زندگی پہنچایاجاسکتاتھاتاکہ دنیاسے کٹےہوئےلوگوں کوشدیدسردی میں جھیل پرآٹےکاتھیلاکھینچنےکی ضرورت نہ پڑتی؟کیاوزیربیگ صاحب اپنے حلقہ انتخاب کےان دردناک اوراندوہ ناک مسائل کےحل کےلیےبحیثیت قائم مقام گورنریااسپیکرقانون سازاسمبلی اپنے اثرورسوخ استعمال کرسکتے تھےجیساکہ انہوں نےغذرکےایک قدآور، انتہائی بااثرزرپرست مگرناتواں سیاسی شخصیت کی متاثرہ جاگیرکاخصوصی دورہ کیااورغریب متاثرین سیلاب کی بحالی کےمختص فنڈزکارخ پیرصاحب کےحجرے کی طرف موڑدیا۔ان سوالوں کاجواب ہے۔۔جی ہاں۔یہ اگرمان بھی لیاجائےکہ حکومت پاکستان کےپاس اتنے وسائل نہیں جواتنےبڑے کرائسس کوکنٹرول کیاجائےلیکن سوال یہ ہےکہ چین کی جانب سےجو پیکشے کی گئی تھی اسے کیوں مستردکیاگیا۔آخرکیاوجہ تھی کہ گوجال کےمکینوں کومکمل طوربربادہونےسے بچانےکےلیےمقامی حکومت نہ صرف خودکوئی کارروائی نہیں کی بلکہ دوسرے ممالک کوبھی کچھ کرنےکی اجازت نہیں۔ایسی صورتحال میں گوجال کےمکین یہ سوچنےپرمجبورنظرآتےہیں کہ حکمرانوں نےووٹ کابدلہ چکانےکےلیےانہیں بربادہونےپرچھوڑدیا۔حکومت کی اس بےحسی پرگوجال میں شدیداحتجاج بھی ہواحتیٰ کہ گلمت میں پیپلزپارٹی کےپرچم کونذرآتش کیےجانے کی خبریں بھی منظرعام پرآگئیں لیکن ان تمام کوششوں کابےحس حکمرانوں پرکوئی اثرنہیں پڑا۔
یہ تاثرنہ صرف گوجال بلکہ گلگت بلتستان کےدوسرے علاقوں میں بھی شدت سے محسوس کیاجارہاہےکہ گوجال کےمکینوں کوشدیدلسانی اورنسلی امتیازکےبعداب انتخابی انتقام کانشانہ بنایاجارہاہےاوریہ سب کچھ ایک ایسی سیاسی پارٹی کےدورحکومت میں کیاجارہاہےجس کےبانی کویہاں کےلوگ نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔
Great! Bloogers of Gilgit-Balitsan please do not give up. Writer as much you can and as regular as time permits. You can make a difference!
ReplyDeleteThank you stateless for encouraging bloggers of Gilgit Baltistan. Due to some unexpected circumstances, ranging from being suffering from Appindicites to giving services to some relatives undertreatment in hospital, it was not possible to update gbtribune for the last few weeks. Inshallah, work on the blogger will resume soon with full zeal and energy.
ReplyDeleteEditor