انقلاب کی دستک۔۔۔۔۔۔۔
دوجولائی1789کادن تھااورپیرس شہرتھا۔پیرس کی مشہورسڑک شانزے لیزے کے ایک سرے پرلوگوں کامجمع لگاتھا۔مجمعے کے اندرایک شاہی محافظ ایک غریب اورمسکین شخص کوپیٹ رہاتھا۔محافظ اس شخص تپھڑوں،مکوں اورڈنڈوں سے ماررہاتھااوردرجنوں لوگ یہ منظردیکھ رہے تھے۔ جبکہ پٹنے والادہائی دے رہاتھا،منتیں کررہاتھا اورمحافظ کے پاوں پڑرہاتھا۔پٹائی کایہ سلسلہ جاری تھا کہ مجمعے کے اندرسے کسی نے محافظ کوایک پتھرماردیا۔محافظ تڑپ کرمجمعے کی طرف مڑااورمجمعے کوگالی دے کرپوچھا: یہ کون گستاخ ہے؟۔مجمعے میں سے کوئی شخص باہرنہ نکلا۔محافظ بپھرگیااوراس نے اپنے ساتھیوں کےساتھ مل کر مجمعے پرلاٹھیاں برساناشروع کردیا۔مجمعے نے ری ایکٹ کیا۔ لوگوں نے محافظ کوپکڑا اورمارناشروع کردیا۔محافظوں کوبچانے کے لیے نئے محافظ آئے لیکن وہ بپھرے ہوئے مجمعے کامقابلہ نہ کرسکے اورمیدان سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس حادثے میں دوشاہی محافظ مارے گئے اورشاہی محافظوں کی یہ دو نعشیں آگے چل کر انقلاب فرانس کی بنیاد بنیں۔لوگوں کواپنی طاقت کااندازہ ہوا اورطاقت کے اس اندازے سے 14جولائی 1789کوسورج طلوع ہوا۔فرانس میں انقلاب آیا اوربادشاہت ختم ہوگئی۔
دوجولائی1789کادن تھااورپیرس شہرتھا۔پیرس کی مشہورسڑک شانزے لیزے کے ایک سرے پرلوگوں کامجمع لگاتھا۔مجمعے کے اندرایک شاہی محافظ ایک غریب اورمسکین شخص کوپیٹ رہاتھا۔محافظ اس شخص تپھڑوں،مکوں اورڈنڈوں سے ماررہاتھااوردرجنوں لوگ یہ منظردیکھ رہے تھے۔ جبکہ پٹنے والادہائی دے رہاتھا،منتیں کررہاتھا اورمحافظ کے پاوں پڑرہاتھا۔پٹائی کایہ سلسلہ جاری تھا کہ مجمعے کے اندرسے کسی نے محافظ کوایک پتھرماردیا۔محافظ تڑپ کرمجمعے کی طرف مڑااورمجمعے کوگالی دے کرپوچھا: یہ کون گستاخ ہے؟۔مجمعے میں سے کوئی شخص باہرنہ نکلا۔محافظ بپھرگیااوراس نے اپنے ساتھیوں کےساتھ مل کر مجمعے پرلاٹھیاں برساناشروع کردیا۔مجمعے نے ری ایکٹ کیا۔ لوگوں نے محافظ کوپکڑا اورمارناشروع کردیا۔محافظوں کوبچانے کے لیے نئے محافظ آئے لیکن وہ بپھرے ہوئے مجمعے کامقابلہ نہ کرسکے اورمیدان سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس حادثے میں دوشاہی محافظ مارے گئے اورشاہی محافظوں کی یہ دو نعشیں آگے چل کر انقلاب فرانس کی بنیاد بنیں۔لوگوں کواپنی طاقت کااندازہ ہوا اورطاقت کے اس اندازے سے 14جولائی 1789کوسورج طلوع ہوا۔فرانس میں انقلاب آیا اوربادشاہت ختم ہوگئی۔
دنیامیں آج تک پانچ بڑے عوامی انقلاب آئے ہیں۔پانچوں عوامی انقلابوں میں انقلاب فرانس کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ اس انقلاب کی وجوہات بہت دلچسپ تھیں۔ فرانس میں ان دنوں بوربون خاندان کی حکومت تھی۔ بادشاہ کے پاس وسیع اختیارات تھے اوراس نے یہ اختیارات اپنےمنظورنظرلوگوں میں تقسیم کررکھے تھے۔ مثلاً آپ عدالتی نظام کولیجئیے۔فرانس میں تمام عدالتی منصب باقاعدہ فروخت کیے جاتے تھے۔ دولت مند لوگ عدالتی منصب خریدتے تھے اوران کے مرنے کے بعد یہ عہدے وراثت میں چلے جاتے تھے۔ یہ لوگ یہ عہدے دوسرے لوگوں کے ہاتھوں بیچ بھی سکتے تھے۔ اس زمانے میں ججوں کی تنخواہیں قلیل تھیں۔ لہٰذا وہ مقدمہ بازوں سے بھاری بھاری رشوتیں لیتے تھے اوران رشوتوں کوجائز سمجھاجاتاتھااوربادشاہ کوکسی بھی شخص کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کااختیارتھا۔آپ پارلیمنٹ کولے لیجئیے۔فرانس میں پارلیمنٹ آف پیرس کے علاوہ 12 صوبائی پارلیمنٹس تھیں اوران پارلیمنٹس کا صرف ایک ہی کام ہوتاتھایعنی بادشاہ کےحکم کوقانونی اورآئینی شکل دینا۔فرانس میں اس وقت بھاری ٹیکس نافذ تھے۔یہ ٹیکس صرف اورصرف عوام پرلاگو تھےجبکہ امرا،جاگیردار،بیوروکریٹس،شاہی خاندان اورپادری ٹیکسوں سے ماوراء تھے۔ حکومت نے ٹیکسوں کی وصولی کاکام ٹھیکے داروں کے حوالے کررکھاتھا اوریہ ٹھیکیدار ٹیکسوں کی وصولی کے لیے کسی شخص کی جان تک لے سکتے تھے۔ ٹھیکیداروں کے ملازمین ملک بھر میں پھیل جاتے تھے اورٹیکس جمع کرنےکے بہانےلوگوں کوخوب لوٹتے تھے۔ فرانس میں فوجی اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی بھاری ٹیکس تھا۔ اس ٹیکس کوٹیلی ٹیکس کہاجاتاتھا۔ ٹیکسوں کایہ عالم تھا کہ حکومت نے عوام پرنمک ٹیکس لگارکھاتھا۔ فرانس میں سات سال سے زائد عمرکےہرشخص کونمک استعمال کرنے پر سالانہ سات پونڈ ٹیکس دیناپڑتاتھا اور اس ٹیکس کی عدم ادائی پرفرانس میں ہرسال تین ہزار سے زائد افراد کوقید،کوڑوں اورملک بدری کی سزا دی جاتی تھی۔
آپ فرانس کے معاشرتی ڈھانچے کوبھی لے لیجئیے۔ فرانس کامعاشرتی نظام طبقاتی تقسیم کاشکار تھا۔آبادی پادری،امرا،عوام میں بٹی ہوئی تھی۔چرچ کی آمدنی پادریوں کی جیبوں میں چلی جاتی تھی۔ اسٹراس برگ کاپادری سال میں چار لاکھ لیراکمالیتاتھاجبکہ عام پادری کی آمدن بھی ایک لاکھ سے دولاکھ تھی۔ فرانس میں امراورجاگیردارخاندانوں کی تعداد20 اور30 ہزار(کے درمیان)تھی جبکہ ملک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائدپادری تھے اوران میں سے دس ہزار اعلیٰ پادری تھے جبکہ چھوٹے پادریوں کی تعداد ساٹھ ہزارتھی۔ اس وقت فرانس کی آبادی اڑھائی کروڑتھی اوران اڑھائی کروڑ لوگوں میں سے چار پانچ لاکھ لوگ مراعات یافتہ تھے۔ گویاچارلاکھ لوگ اڑھائی کروڑ لوگوں کی کمائی کھاتے تھے۔ ان دنوں فرانس میں ایک قول بہت مشہور تھی: امراجنگ کرتے ہیں۔پادری دعامانگتے ہیں جبکہ عوام ان کامالی بوجھ برداشت کرتے ہیں۔ فرانس ایک زرعی ملک تھا جس میں دوکروڑ سے زائد لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے۔ لیکن ان لوگوں کی کمائی ٹیکسوں کی نذرہوجاتی تھی۔ کسان جاگیرداروں کے رحم وکرم پرتھے۔وہ جاگیرداروں کی اجازت کے بغیراپنی زمینوں کے گردباڑھ نہیں لگاسکتے تھے اورفصلوں کوخراب کرنے والے جنگلی جانوروں اورپرندوں کوہلاک نہیں کرسکتے تھے۔ اس دور میں فرانس میں قانون کی تمام کتابیں لاطینی زبان میں تھیں اورعوام اس زبان سے واقف نہیں تھے۔ ملک میں 360اقسام کے قوانین تھے۔ عوام کومعمولی جرائم پرکڑی سزائیں دی جاتی تھیں جبکہ امرا قانون سے بالاتر تھے۔ بادشاہ پیرس سے 12میل دور ورسائی کے محلات میں رہتاتھا۔ اس کے دربار میں 18ہزار افراد موجود ہوتے تھے۔ محل میں16 ہزار شاہی خادم تھے۔صرف ملکہ کی خادماوں کی تعداد پانچ سو تھی۔ شاہی اصطبل میں19سو گھوڑے تھے جن کی دیکھ بھال کے لیے40لاکھ ڈالرسالانہ خرچ ہوتے تھے اورباورچی خانہ کاخرچ 15لاکھ تھا۔ بادشاہ کی ان شاہ خرچیوں کے سبب فرانس چار باردیوالیہ ہوچکاتھا۔ دولاکھ سے زائد مزدور بے روزگار ہوچکے تھے۔ فرانس میں روٹی کی قیمت چارپونڈ تک پہنچ چکی تھی ۔سالانہ خسارہ 15کروڑ لیرا اورقرضوں کی رقم چارارب چالیس کروڑ لیراتھی اور23کروڑ60لاکھ لیراسالانہ بطور سودادا کیاجاتاتھا اورفرانس کی کل آمدنی کا تین چوتھائی حصہ فوجی اخراجات پرصرف ہوجاتاتھا۔ ملک کے جیل خانے معصوم اوربے قصورلوگوں سے بھرے پڑے تھے ۔لہٰذا ان حالات میں عوام کے اندر نظام کے خلاف نفرت ابلنے لگی۔ اس نفرت کو14جولائی 1789 میں میٹیرلائزہونے کاموقع مل گیا۔ پیرس میں دو شاہی محافظ مارے گئے اوراس کے بعد فرانس میں وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔
اگرہم آج کے پاکستان اور18ویں صدرکے فرانس کاتجزیہ کریں تو ہمیں پاکستان کے حالات ماضی کے فرانس سے ملتے جلتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کے اندر بھی ایک ایسا لاوا ابل رہا ہےجوباہرنکلنے کاراستہ تلاش کررہاہے۔بشکریہ پاکستانزم
جب تخت گرائے جائیں گے۔۔
مصدق گھمن
کیا ہم بھی ایک انقلاب کے دہانے پر کھڑے ہیں؟
امید اور خوف کی نئی فضا جو کرغستان انقلاب کے بعد ہے۔ اگرچہ اس انقلاب کو انقلاب فرانس ، بالشویک انقلاب اور انقلاب ایران کی طرح بھرپور عوامی انقلاب قرار دینا مشکل ہے کہ سیاسی اشرافیہ کے ایک ٹولے نے عوامی مسائل کو بنیاد بنا کر وسائل پر قابض دوسرے گروہ کو ہٹاتے ہوئے اپنے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی ہے مگر پھر بھی یہ انقلاب اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا ہے۔
جب سماجی و معاشی ناہمواریاں، ظلم و ناانصافی ، وسائل کی لوٹ مار اور اقتدار کی ہوس تمام حدیں عبور کر جائے تو انقلاب آکر ہی رہتے ہیں۔ کبھی یہ جارجیا کے ``گلابی انقلاب`` اور یو کرائن کے`` اورنج ریوولوشن`` کی طرح پرامن ہوتے ہیں تو کبھی انقلاب فرانس او ر روس کے بالشویک انقلاب کی مانند پر تشدد ۔ ہمارے ہاں جب بھی انقلاب کی صورت ہوئی مجھے خدشہ ہے کہ یہ تشدد و بربریت کے نئے ریکارڈ قائم کرے گا۔ چنگاریاں سلگ رہی ہیں، لاوا پک رہا ہے، انتظار کیجئے کس دن یہ لاوا پھٹتا ہے، کب صبر کے پیمانے لبریز ہوتے ہیں اور کس لمحے حالات کے جبر کی ماری جنتا جارجیا کے عوام کی طرح Enough is enough کے نعرے لگاتی انقلا ب فرانس کی طرز پر اڑا دو ، جلادو اور مار دو کی ہذیانی کیفیت کا شکار ہوتی ہے۔ اک ذرا توقف کہ خلق خدا زیر لب بڑبڑا رہی ہے۔
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
عرصہ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں
ہم کو رہنا ہے پر یونہی تونہیں رہنا ہے
اجنبی ہاتھوں کا بے نام گرانبار ستم
آج سہنا ہے ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے
جہاں سماجی، معاشی اور معاشرتی ناہمواری کا عالم یہ ہو کہ حکومت کے زیر انتظام چلنے والی سرکاری کارپوریشنوں اور خود مختار و نیم خود مختاراداروں سمیت دیگر سرکاری اداروں کے سربراہان تو آٹھ آٹھ دس دس لاکھ روپے تنخواہ وصول کرتے ہوں جبکہ انہی اداروں میں صاحب کی فائلیں اٹھانے والے اور صاحب کے دفتر کی صفائی کا انتظام کرنے والے کی اوقات محض سات یا آٹھ ہزار روپے ماہانہ سمجھی جائے ، جہاں ایک یونیورسٹی کا وائس چانسلر ماہانہ اڑھائی لاکھ روپے تنخواہ لیتا ہو جبکہ اس یونیورسٹی میں کام کرنے والے ایک گارڈ کی تنخواہ صرف سات ہزار روپے ماہانہ ہو۔ ایک ایسا ملک جہاں دن بدن امیر اور غریب کے درمیان خلیج اور گہری ہوتی جارہی ہو ، امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہو، جہاں حکمران عوامی مسائل سے بتدریج لاتعلق ہوتے نظر آئیں، جہاں اقتدار کی ہوس میں محض اپنے مفادات کی خاطر قوم کو بدامنی کی بھینٹ چڑھا دیا جائے ، جہاں تما تر وسائل اور صلاحیت کے ہوتے ہوئے بھی عوام کے مسائل حکمرانوں کی عدم توجہی کا شکار رہیں، جس ملک میں اگلے 800 سال تک 50 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہو لیکن عوام کو روزانہ 18-20 گھنٹے لوڈشیڈنگ کا عذاب برداشت کرنے پر مجبور کر دیا جائے، جہاں پورا مہینہ صرف ایک بلب جلانے کی سزا 500 روپے جرمانہ کی صورت ادا کرنی پڑے جہاں سماجی تفریق کا یہ عالم ہو کہ حکمران اپنے علاج کیلئے غیر ملکی ہسپتالوں کا رخ کریں مگر عوام کو اس تسلی میں رکھیں کہ گورنمنٹ ہسپتالوں میں تمہارے لئے بہترین علاج کا بندوبست کر رکھا ہے۔ جہاں حکمران اپنے بچوں کیلئے سکول و کالج کا انتخاب کرنے لگیں تو انکا انتخاب غیر ملکی سکول و کالج ہوں لیکن وہ بنام عوام یہ بلند و بانگ دعویٰ کریں کہ سرکاری سکولوں میں بہترین تعلیمی معیار قائم کیا جا چکا ہے۔ جہاں حکمرانوں کا احساس ہی ختم ہو جائے کہ یونیورسٹی کا وہ گارڈ جو سات ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لیتا ہے اسکی گھریلو ذمہ داری کی نوعیت کیا ہے؟ا ور کیا وہ اس قلیل تنخواہ میں ان ذمہ داریوں سے عہدہ براہ ہو لیتا ہو گا؟ جس غریب گارڈ کی تنخواہ کا 50 فیصد 3-1/2 ہزار روپے اپنے بھائی کیساتھ شیئر کئے ہوئے مکان کے کرایہ میں صرف ہو جاتا ہو، دو ہزار روپے ماہانہ یوٹیلی بلوں کی ادائیگی میں لگ جاتا ہو ذرا تصور کیجیئے کہ باقی ماندہ ڈیڑھ ہزار روپے سے وہ اپنا اپنی بیوی اور تین بچوں کا پیٹ کس طرح پالتا ہو گا؟ اس تصور سے ہی ٹھنڈے پسینے آسکتے ہیںمگر حکمرانوں کو احساس کہاں کہ اس گارڈ جیسے لاکھوں بلکہ کروڑوں بے بس و مجبور لوگ اپنا گزارہ کیسے کرتے ہونگے؟ جہاں ڈگریاں اٹھائے نوجوان نوکری کی تلاش میں برسہا برس سے مارے مارے پھرتے ہوں اور حکومت یہ پوچھنا بھی گوارا نہ کرے کہ تمہارے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟ اور وہ جنہوں نے تمہاری نوکری سے ہی تمام امیدیں باندھ رکھی ہیں کیا تمہارے علاوہ انکا کوئی دوسرا آسرا بھی ہے؟ جہاں لاکھوں مزدور ایسے ہوں کہ جن کے گھر کا چولہا ہر روز کی ہونے والی آمدنی سے ہی چلتا ہو اور ان سے کوئی یہ پوچھنے کی زحمت نہ کرے کہ لوڈشیڈنگ کے باعث جب فیکٹری بند ہو جاتی ہے تو اس دن تمہارے گھر کا چولہا کیسے جلتا ہے؟ کہیں تمہارے بچے روٹی کھائے بغیر تو نہیں سو جاتے؟ جہاں غریب روٹی کا محتاج اور حکمران ظہرانوں و عشائیوں میں تیتر، بٹیر اور کشمیری گوشتاپوں سے اپنے پیٹ بھر رہے ہیں، جہاں سیاسی اشرافیہ پانچ ہزار روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہو لیکن غریب کیلئے ماچس کی ڈبیا پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے، جہاں عوامی مسائل کے حل کیلئے تو وسائل کا رونا رویا جائے مگر سرکاری وسائل سے اپنی گاڑیوں کے ٹائر بدلنے پر ہی لاکھوں روپے لگا دئیے جائیں وہاں انقلاب کیلئے کسی اور چارج شیٹ کی ضرورت نہیں رہتی۔
جہاں جب لوگوں کے اندر یہ احساس پختہ ہو جائے کہ اس نظام میں سرکار کیلئے وسائل ہی وسائل جبکہ ان کیلئے مسائل ہی مسائل ہیں، جہاں عوام کو یقین ہوجائے کہ حکمران کا احساس مر چکا ہے اور حالات سدھرنے کی کوئی سبیل نہیں رہی وہاں انقلاب کی آمد کوئی زیادہ دیر کی بات نہیں رہتی۔ انقلاب دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے مگر حکمران اس کی موجودگی سے بے خبر رہتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے وہ عوام کی تکلیفوں اور دکھ درد سے بے خبر ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کو اسکا پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ خاموشی سے نہیں بلکہ دروازہ توڑ کر ان کے گھروں میں داخل ہو جاتا ہے۔ پھر دارورسن کے لالے پڑ جاتے ہیں لیکن بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ پھر بھاگنے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔ جیسے آج کرغستان کا صدر کرمان بیک بھاگ گیا ہے۔ جیسے کل وہاں سے اسکرا کا یوف بھاگ نکلا تھا۔ خوش نصیب ہوتے ہیں جو بھاگ نکلنے میں کامیاب رہتے ہیں ورنہ انقلاب کے بے رحم ہاتھ تو ایسے لوگوں کو بھی چن چن کر مار دیتے ہیں جن کی ہتھیلیاں نرم پائی جاتی ہیں۔ کیا انقلاب فرانس کے واقعات کو لوگ بھول گئے؟
ایک انقلاب وہ تھا جو جارجیا اور یوکرائن میں آیا تھا۔ ایک انقلاب وہ ہے جو 2005 ء میں ``ٹیولپ انقلاب `` کی شکل میں کرغستان میں آیا تھا اور آج بھی وہاں تقریباً ویسے ہی `` ایکشن ری پلے`` ہو رہا ہے۔ ایک انقلاب کی داستان انقلاب فرانس اور روس کی صورت ہمارے حافظوں میں موجود ہے۔ ان تمام انقلابوں کی وجہ ایک ہی تھی مگر انقلاب کی شدت جدا جدا رہی۔ ہمارے دروازے پر بھی انہی وجوہات کی بنا پر ایک انقلاب دستک دے رہا ہے۔ چنگاریاں سلگ رہی ہیں، لاوا پک رہا ہے، انتظار کیجئے کس دن یہ لاوا پھٹتا ہے، کس دن صبر کے پیمانے لبریز ہوتے ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ جب بھی انقلاب کی صورت ہوئی تو یہ انقلاب کم از کم پرامن نہیں ہو گا ۔ مجھے خدشہ ہے کہ حالات کے جبر کی ماری عوام جارجیا کے عوام کی طرح `` بہت ہو چکا`` کے نعرے لگاتی نکلے گی اور انقلاب فرانس کی طرز پر اڑا دو ، جلا دو اور مار دو کی ہذیانی کیفیت کا شکار ہو جائے گی۔
یہیں سے اٹھے گا شور محشر
یہیں پہ روز حساب ہو گا
بشکریہ رسول نیوز
امید اور خوف کی نئی فضا جو کرغستان انقلاب کے بعد ہے۔ اگرچہ اس انقلاب کو انقلاب فرانس ، بالشویک انقلاب اور انقلاب ایران کی طرح بھرپور عوامی انقلاب قرار دینا مشکل ہے کہ سیاسی اشرافیہ کے ایک ٹولے نے عوامی مسائل کو بنیاد بنا کر وسائل پر قابض دوسرے گروہ کو ہٹاتے ہوئے اپنے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی ہے مگر پھر بھی یہ انقلاب اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا ہے۔
جب سماجی و معاشی ناہمواریاں، ظلم و ناانصافی ، وسائل کی لوٹ مار اور اقتدار کی ہوس تمام حدیں عبور کر جائے تو انقلاب آکر ہی رہتے ہیں۔ کبھی یہ جارجیا کے ``گلابی انقلاب`` اور یو کرائن کے`` اورنج ریوولوشن`` کی طرح پرامن ہوتے ہیں تو کبھی انقلاب فرانس او ر روس کے بالشویک انقلاب کی مانند پر تشدد ۔ ہمارے ہاں جب بھی انقلاب کی صورت ہوئی مجھے خدشہ ہے کہ یہ تشدد و بربریت کے نئے ریکارڈ قائم کرے گا۔ چنگاریاں سلگ رہی ہیں، لاوا پک رہا ہے، انتظار کیجئے کس دن یہ لاوا پھٹتا ہے، کب صبر کے پیمانے لبریز ہوتے ہیں اور کس لمحے حالات کے جبر کی ماری جنتا جارجیا کے عوام کی طرح Enough is enough کے نعرے لگاتی انقلا ب فرانس کی طرز پر اڑا دو ، جلادو اور مار دو کی ہذیانی کیفیت کا شکار ہوتی ہے۔ اک ذرا توقف کہ خلق خدا زیر لب بڑبڑا رہی ہے۔
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
عرصہ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں
ہم کو رہنا ہے پر یونہی تونہیں رہنا ہے
اجنبی ہاتھوں کا بے نام گرانبار ستم
آج سہنا ہے ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے
جہاں سماجی، معاشی اور معاشرتی ناہمواری کا عالم یہ ہو کہ حکومت کے زیر انتظام چلنے والی سرکاری کارپوریشنوں اور خود مختار و نیم خود مختاراداروں سمیت دیگر سرکاری اداروں کے سربراہان تو آٹھ آٹھ دس دس لاکھ روپے تنخواہ وصول کرتے ہوں جبکہ انہی اداروں میں صاحب کی فائلیں اٹھانے والے اور صاحب کے دفتر کی صفائی کا انتظام کرنے والے کی اوقات محض سات یا آٹھ ہزار روپے ماہانہ سمجھی جائے ، جہاں ایک یونیورسٹی کا وائس چانسلر ماہانہ اڑھائی لاکھ روپے تنخواہ لیتا ہو جبکہ اس یونیورسٹی میں کام کرنے والے ایک گارڈ کی تنخواہ صرف سات ہزار روپے ماہانہ ہو۔ ایک ایسا ملک جہاں دن بدن امیر اور غریب کے درمیان خلیج اور گہری ہوتی جارہی ہو ، امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہو، جہاں حکمران عوامی مسائل سے بتدریج لاتعلق ہوتے نظر آئیں، جہاں اقتدار کی ہوس میں محض اپنے مفادات کی خاطر قوم کو بدامنی کی بھینٹ چڑھا دیا جائے ، جہاں تما تر وسائل اور صلاحیت کے ہوتے ہوئے بھی عوام کے مسائل حکمرانوں کی عدم توجہی کا شکار رہیں، جس ملک میں اگلے 800 سال تک 50 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہو لیکن عوام کو روزانہ 18-20 گھنٹے لوڈشیڈنگ کا عذاب برداشت کرنے پر مجبور کر دیا جائے، جہاں پورا مہینہ صرف ایک بلب جلانے کی سزا 500 روپے جرمانہ کی صورت ادا کرنی پڑے جہاں سماجی تفریق کا یہ عالم ہو کہ حکمران اپنے علاج کیلئے غیر ملکی ہسپتالوں کا رخ کریں مگر عوام کو اس تسلی میں رکھیں کہ گورنمنٹ ہسپتالوں میں تمہارے لئے بہترین علاج کا بندوبست کر رکھا ہے۔ جہاں حکمران اپنے بچوں کیلئے سکول و کالج کا انتخاب کرنے لگیں تو انکا انتخاب غیر ملکی سکول و کالج ہوں لیکن وہ بنام عوام یہ بلند و بانگ دعویٰ کریں کہ سرکاری سکولوں میں بہترین تعلیمی معیار قائم کیا جا چکا ہے۔ جہاں حکمرانوں کا احساس ہی ختم ہو جائے کہ یونیورسٹی کا وہ گارڈ جو سات ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لیتا ہے اسکی گھریلو ذمہ داری کی نوعیت کیا ہے؟ا ور کیا وہ اس قلیل تنخواہ میں ان ذمہ داریوں سے عہدہ براہ ہو لیتا ہو گا؟ جس غریب گارڈ کی تنخواہ کا 50 فیصد 3-1/2 ہزار روپے اپنے بھائی کیساتھ شیئر کئے ہوئے مکان کے کرایہ میں صرف ہو جاتا ہو، دو ہزار روپے ماہانہ یوٹیلی بلوں کی ادائیگی میں لگ جاتا ہو ذرا تصور کیجیئے کہ باقی ماندہ ڈیڑھ ہزار روپے سے وہ اپنا اپنی بیوی اور تین بچوں کا پیٹ کس طرح پالتا ہو گا؟ اس تصور سے ہی ٹھنڈے پسینے آسکتے ہیںمگر حکمرانوں کو احساس کہاں کہ اس گارڈ جیسے لاکھوں بلکہ کروڑوں بے بس و مجبور لوگ اپنا گزارہ کیسے کرتے ہونگے؟ جہاں ڈگریاں اٹھائے نوجوان نوکری کی تلاش میں برسہا برس سے مارے مارے پھرتے ہوں اور حکومت یہ پوچھنا بھی گوارا نہ کرے کہ تمہارے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟ اور وہ جنہوں نے تمہاری نوکری سے ہی تمام امیدیں باندھ رکھی ہیں کیا تمہارے علاوہ انکا کوئی دوسرا آسرا بھی ہے؟ جہاں لاکھوں مزدور ایسے ہوں کہ جن کے گھر کا چولہا ہر روز کی ہونے والی آمدنی سے ہی چلتا ہو اور ان سے کوئی یہ پوچھنے کی زحمت نہ کرے کہ لوڈشیڈنگ کے باعث جب فیکٹری بند ہو جاتی ہے تو اس دن تمہارے گھر کا چولہا کیسے جلتا ہے؟ کہیں تمہارے بچے روٹی کھائے بغیر تو نہیں سو جاتے؟ جہاں غریب روٹی کا محتاج اور حکمران ظہرانوں و عشائیوں میں تیتر، بٹیر اور کشمیری گوشتاپوں سے اپنے پیٹ بھر رہے ہیں، جہاں سیاسی اشرافیہ پانچ ہزار روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہو لیکن غریب کیلئے ماچس کی ڈبیا پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے، جہاں عوامی مسائل کے حل کیلئے تو وسائل کا رونا رویا جائے مگر سرکاری وسائل سے اپنی گاڑیوں کے ٹائر بدلنے پر ہی لاکھوں روپے لگا دئیے جائیں وہاں انقلاب کیلئے کسی اور چارج شیٹ کی ضرورت نہیں رہتی۔
جہاں جب لوگوں کے اندر یہ احساس پختہ ہو جائے کہ اس نظام میں سرکار کیلئے وسائل ہی وسائل جبکہ ان کیلئے مسائل ہی مسائل ہیں، جہاں عوام کو یقین ہوجائے کہ حکمران کا احساس مر چکا ہے اور حالات سدھرنے کی کوئی سبیل نہیں رہی وہاں انقلاب کی آمد کوئی زیادہ دیر کی بات نہیں رہتی۔ انقلاب دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے مگر حکمران اس کی موجودگی سے بے خبر رہتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے وہ عوام کی تکلیفوں اور دکھ درد سے بے خبر ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کو اسکا پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ خاموشی سے نہیں بلکہ دروازہ توڑ کر ان کے گھروں میں داخل ہو جاتا ہے۔ پھر دارورسن کے لالے پڑ جاتے ہیں لیکن بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ پھر بھاگنے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔ جیسے آج کرغستان کا صدر کرمان بیک بھاگ گیا ہے۔ جیسے کل وہاں سے اسکرا کا یوف بھاگ نکلا تھا۔ خوش نصیب ہوتے ہیں جو بھاگ نکلنے میں کامیاب رہتے ہیں ورنہ انقلاب کے بے رحم ہاتھ تو ایسے لوگوں کو بھی چن چن کر مار دیتے ہیں جن کی ہتھیلیاں نرم پائی جاتی ہیں۔ کیا انقلاب فرانس کے واقعات کو لوگ بھول گئے؟
ایک انقلاب وہ تھا جو جارجیا اور یوکرائن میں آیا تھا۔ ایک انقلاب وہ ہے جو 2005 ء میں ``ٹیولپ انقلاب `` کی شکل میں کرغستان میں آیا تھا اور آج بھی وہاں تقریباً ویسے ہی `` ایکشن ری پلے`` ہو رہا ہے۔ ایک انقلاب کی داستان انقلاب فرانس اور روس کی صورت ہمارے حافظوں میں موجود ہے۔ ان تمام انقلابوں کی وجہ ایک ہی تھی مگر انقلاب کی شدت جدا جدا رہی۔ ہمارے دروازے پر بھی انہی وجوہات کی بنا پر ایک انقلاب دستک دے رہا ہے۔ چنگاریاں سلگ رہی ہیں، لاوا پک رہا ہے، انتظار کیجئے کس دن یہ لاوا پھٹتا ہے، کس دن صبر کے پیمانے لبریز ہوتے ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ جب بھی انقلاب کی صورت ہوئی تو یہ انقلاب کم از کم پرامن نہیں ہو گا ۔ مجھے خدشہ ہے کہ حالات کے جبر کی ماری عوام جارجیا کے عوام کی طرح `` بہت ہو چکا`` کے نعرے لگاتی نکلے گی اور انقلاب فرانس کی طرز پر اڑا دو ، جلا دو اور مار دو کی ہذیانی کیفیت کا شکار ہو جائے گی۔
یہیں سے اٹھے گا شور محشر
یہیں پہ روز حساب ہو گا
بشکریہ رسول نیوز
Comments
Post a Comment