Editorial: PM visits Gilgit Baltistan with empty hands

وزیراعظم کادورہ گلگت بلتستان۔۔تباہ حال قوم کے ساتھ ایک اور مذاق

حالیہ سیلاب نے جہاں پاکستان کے چاروں صوبوں اورکشمیرمیں تباہی مچائی ہے وہاں گلگت بلتستان بھی بری طرح متاثرہواہے۔غذرمیںیاسین،پنیال اوراشکومن اور گلگت میں گلگت سٹی اوربسین میں بڑے پیمانے زرعی اراضی اورمکانات تباہ ہوچکے ہیں۔اسی طرح۔بلتستان،گانچھےاوردیامر میں سیلاب سے کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے اوردرجنوں افراد جان بحق ہوئے۔گلگت بلتستان میں سیلاب کے باعث اربوں روپے مالیت کی زرعی اراضی،فصلیں او رجنگلات تباہ وبرباد ہوگئے اورہزاروں مویشی ہلاک ہوگئے۔سینکڑوں گھربھی سیلاب میں بہہ گئے اورہزاروں افرادگزشتہ ایک ماہ سے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پرمجبورہیں۔ ہنزہ کے مقام میں تودہ گرنے اورشاہراہ قراقرم بلاک ہونے کے باعث ہمسائیہ ملک چین کے ساتھ زمینی رابطہ گزشتہ سات ماہ منقطہ ہے۔سیلاب کے باعث شاہراہ قراقرم کاگلگت بلتستان اورراولپنڈی سیکشن بھی کئی مقامات پریاتودریامیں بہہ چکاہے یاپہاڑی تودوں کی نظرہوچکاہے اورکئی پل میں گرچکے ہیں جس کے باعث خطے کاپاکستان کے ساتھ بھی زمینی رابطہ گزشتہ ایک ماہ سے منقطع ہوچکاہے جس کی وجہ سے خوراک، ایندھن، ادوایات اوردیگرضروریات زندگی کی اشیا کی شدید قلت پائی جاتی ہےاورعلاقے میں قحط کی صورتحال پیداہوگئی ہے۔
 ایک محتاط اندازے کے مطابق گلگت بلتستان میں سیلاب سے مجموعی طور20ارب روپے سےزائدکانقصان ہواہے۔نیشنل ڈزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق گلگت بلتستان میں 16لاکھ افرادسیلاب سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔سیلاب سے 183افرادجاں بحق،370دہیات،947کلومیڑسڑکیں،182پل اور2820گھر مکمل طورپرتباہ ہوچکے ہیں۔این ڈی ایم اے کے مطابق 72ہزارمربع کلومیٹرزرعی اراضی متاثرہوئی ہے اور5ہزارمویشی ہلاک ہوگئے ہیں۔وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ نے گزشتہ روزاسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امداد اوربحالی کے لیے وفاق سے 12ارب روپے طلب کیے۔وزیراعلیٰ کی پریس کانفرن کے اگلے روزوزراعظم یوسف رضاگیلانی نے گلگت بلتستان کے سیلاب سے مثاثرہ علاقوں کافضائی دورہ کیا۔بعد ازاں غذرکے علاقے ہندورمیں متاثرین سیلاب سے خطاب کیا۔ توقع کی جارہی تھی کہ وزیراعظم اپنےدورے میں کم ازکم اتنی امدادکااعلان ضرورکریں گے جس کامطالبہ ایک روزقبل وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ نے اسلام آباد میں کیاتھا۔لیکن وزیراعظم نے ہندورمیں متاثرین سے خطاب میں کسی بھی قسم کی امداد کااعلان کرنےکے بجائےایک بارپھر اپنے سیاسی قائدین ذوالفقارعلی بھٹو،بے نظیربھٹواورآصف زرداری کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابےایک کرنے کوترجیح دی۔وزیراعظم کے خطاب کے دوران شرکانے شدیداحتجاج کیا۔ جلسے کے دوران متاثرین میں سے فردوم نامی شخص نے کھڑےہوکرکہاکہ ہمارے گھربارتباہ برباد ہوچکے ہیں۔سینکڑوں بےگھرمتاثرین دربدری کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں اورآپ امدادکااعلان کرنے کے بجائے اپنے آقاوں کی تعریفیں کرنے آئے ہیں۔ہمیں تعریفیں نہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔جلسے میں مظاہرین نے حکومت کے خلاف شدیدی نعرے بازی بھی کی۔
ایک مقامی شخص کاکہنا تھا کہ وزیراعظم نےگلگت،گاہکوچ،اسکردویااچلاس جیسے مرکزی شہروں جوسیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں کادورہ کرنے کے بجائےدورے کے لیے ہندورجیسے دوردراز علاقے کاانتخاب اس لیے کیاتھا کہ وہاں انہیں عوام غیض غضب کاسامناکرنے کی توقع نہ تھی تاہم ہندورمیں بھی وزیراعظم کے پرفریب الفاظ کاجادونہ چل سکا۔وزیراعظم کواس بات کااندازہ ہواہوگاکہ جس غذرکووہ لاڑکانہ سمجھتے ہیں وہاں کے باسی لاڑکانہ کی سیاسی ،اقتصادی اورسماجی صوتحال سے بخوبی واقف ہیں۔انہیں یہ بھی اندازہ ہوا ہوگا کہ یہاں کے عوام علاقے کولاڑکانہ بنانے کی حکمرانوں کی سازش کواچھی طرح بھانپ گئے ہیں اوریہ تہیہ کیاہواہے کہ وہ کسی صورت گلگت بلتستان کولاڑکانہ بننے نہیں دیں گے۔سوال یہ ہے کہ اگر امداد دینے کااعلان کرناہی نہیں تھاتووزیراعظم نے متاثرہ علاقوں کادورہ کیاہی کیوں؟ تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران  صدرزرداری کے حالیہ دورہ برطانیہ اورفرانس سےایک طرف پیپلز پارٹی کی ساکھ کوشدیدنقصان پہنچاہےتودسری طرف فوج اورحزب اختلاف، خاص طورپرمسلم لیگ(ن)کی ساکھ بہت زیادہ بہترہوئی ہے۔یہ صورتحال صدرزرداری کے لیےکسی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتاجس کااظہارانہوں نے اپنے دورہ برطانیہ میں یہ کہہ کرکیاکہ افغانستان اورقبائلی علاقوں میں اتحادی جنگ ہاررہے ہیں۔ اس بیان کامقصدفوج کی ساکھ کوخراب کرنابتایاجاتاہے۔صدرزرداری نے پاکستان واپس آنے کے بعدبھی کئی مقامات میں اپنی تقاریرمیں کہاکہ کچھ سیاسی اداکارسیلاب زدگان کے ساتھ تصویریں کھنچوانے کاشوق رکھتے ہیں۔ واضح طورپرصدرزرداری کااشارہ حزب اختلاف اورفوج کی طرف تھا۔ستم بالائے ستم یہ سیلاب زدگان کے لیے بیرونی امدادنہ ہونے کے برابرہے۔اس کی وجہ کرپشن کے باعث موجودہ حکومت پراعتمادکافقدان بتایاجاتاہے۔بحرحال ایسی صورتحال میں گلگت  بلتستان کے عوام کوامداد کے لیےموجودہ حکومت پرتکیہ کرنے کے بجائے اپنی مددآپ کے تحت بحالی کےکاموں کاآغازکرناچاہیے۔جس میں یقینی طورپرمقامی اوردیگرتنظیموں کی مددحاصل رہے گی۔عوام کویہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وزیراعظم نے گزشتہ سال قانون سازاسمبلی کے انتخابات کے دوران جوبلندبانگ دعوے اورواعدے کیے تھے نہ صرف ان میں سے کسی ایک پربھی عمل درآمدنہیں ہوا۔بلکہ سالانہ ترقیاتی بحٹ میں 50 فیصد کمی کرکے عوام کے منہ سے نوالے چھیننے کی کوشش کی گئی ہےاوراس بجٹ کی نگرانی بھی ایک کرپٹ ٹولے کے ہاتھ میں دی گئی ہے۔قانون سازاسمبلی کی گزشتہ ایک سال کی کارگردگی مایوس کن ہے۔مرکزی حکومت کے حلقہ اثرمیں گلگت بلتستان میں کرپشن حد سےزیادہ بڑھی ہےاور مسائل میں کمی کے بجائے بے تحاشہ اضافہ ہوتاجارہاہے۔

Comments