خبر لیجئے دہن بگڑا
بچپن سے ہی ادب
کا قرینہ پڑھتے اور سمجھتے آئے ۔ بندہ آپ ، جناب کہنا سیکھ لے تو جی ، حضور سننے
کی خواہش کا دل میں چٹکیاں بھرنا قدرتی امر ہے ۔ آداب کے اس سلیقے کی عادت کچھ
ایسی پختہ ہوئی کہ طبیعت ، اب بےادبی کیطرف مائل ہو کے ہی نہیں دیتی ۔ بال بچے دار
ہوئے تو بزرگوں کی دی گھٹی نے کام دکھایا ،، پالنے میں لیٹے بچوں کو بھی ہمیشہ آپ
کہہ کر ہی مخاطب کیا ۔ بچے کہ اب بڑے ہو چکے ، کالج ، یونیورسٹی کی ہوا کھائی تو
گود کا سبق بھول گئے ۔ موبائل اور سوشل میڈیا کی چیٹنگ کے اس دور دلپذیر میں تحریر
کے اختصار کیساتھ القابات بھی مختصر ہوتے چلے گئے ۔ یہ تو شکر ہوا کہ آج کی نسل
میں نوبت ابھی تم اور تو تک ہے ، دشنام طرازی تک نہیں پہنچی ۔ البتہ برق رفتار
زندگی اور زقند بھرتی امنگیں ، اشرف المخلوقات حضرت انسان کی آنیوالی نسلوں کو
مٹتی ہوئی بے ننگ و نام تہذیب کی جس پستی میں جا گرائیں گی ، اس کے آثار نظر آنے
شروع ہو گئے ہیں ۔
تاریخ کی ضخیم کتابوں اور ماضی کی بلیک اینڈ وائٹ فلموں میں جابجا دیکھا کہ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب گھنگھرو پہننے والی ، نخرہ و ناز دکھانے والی رقاصاوں کے بالاخانے مشرقی تہذیب کی نشست و برخاست سکھانے کے مستند مدارس تھے ۔ آج جبکہ علم و فن کی ڈگریاں ، ریوڑیوں کے مول بٹ رہی ہیں ، گھر بنیادوں سے لیکر چھتوں اور منڈیروں تک دنیاوی علوم کی چکا چوند سے منور ہیں ، پھر کیا ہوا کہ مائیں ، اپنے نونہالوں کو معاشرتی زندگی گزارنے کا ہنر سکھانے سے بھی قاصر ہیں ۔ آپ جناب اور تو تڑاک کا فرق زمانوں کا نہیں نسلوٕں کا ہے ۔ اس ناسٹیلجیا کا صرف میں ہی واحد شکار نہیں ، 50 کے پیٹے میں آنیوالے ہر شخص کویہ خوش گمانی ہے کہ ہماری مائیں چونکہ تہذیب اور تمدن کے ایک ہی دور سے گزریں ، اس لئے ہماری پرورش میں بچے کو مہذب دنیا کا فرد بنانے کی کاوش شامل حال رہی ۔۔ بصد افسوس کہ ہمارے دور کے کچھ بدنصیب ابھی ہیں جو بوجوہ اپنی ماوں کی صحبت سے محروم رہ گئے ۔
دوستوں کا گلہ ہے کہ میں روتا بہت ہوں ۔ صاحب لوگو ! سنو یہ موم کے مجسمے کی آنکھوں سے گرنے والے وہ آنسو ہیں جو کسی دوسرے کو جلائے بغیر اپنے ہی جسم کو پگھلا دیتے ہیں ۔ اپنی صحافتی تربیت ایسے ہاتھوں میں ہوئی کہ بدتمیزی سے بھرے غلاظت کے ڈھیر سے دور ہی رہے ،، روزنامہ نوائے وقت میں قدم رکھا تو نیوز روم کی سیمی سرکل میز کے ساتھ بچھی کرسیوں پر بیٹھے کسی انٹرنی کی جرات نہ تھی کہ اپنے سے 6 ماہ سینیئر کی کرسی پر جابیٹھے ۔ اپنے وقت کے جاہ وجلال سے بھرپور نیوزایڈیٹر توصیف احمد خان صاحب ( خاں صاحب ، اب باریش ہو گئے ہیں ، چہرے پر رعب داب برقرار ہے لیکن آواز میں دھیمہ پن آ گیا ہے ) کے دور میں شہنشاہ صحافت قبلہ عباس اطہر صاحب کیلئے شیشے کا الگ کیبن بنا ، کیبن میں گھومنے والی کرسی رکھی گئی تو ہم جیسے نوآموزوں کیلئے ایک کھیل بن گیا ،، ایک ایک کر کے اٹھتے ، شاہ جی کے کیبن میں جھانکتے اور واپس مڑ آتے ۔ ایک ساتھی کچھ زیادہ ہی جوش میں آیا ، شیشے کا دروازہ سرکایا ، کیبن میں گھسا اور اچھل کر شاہ جی کی کرسی پر بیٹھ گیا ،،، نہ صرف بیٹھ گیا بلکہ جھولا جھولنے لگا ،، سیمی سرکل میز کے عین وسط میں بیٹھے توصیف احمد خان صاحب کی نظر پڑی تو وہیں سے گرجے ،، کچھ شرم آتی ہے ، تمہیں پتہ ہے کس کی کرسی پر بیٹھے ہو ۔ مانو ! نچوڑو تو خون نہیں ،، اگلے کئی دن تک ہم سب اپنی گستاخی کی معذرت کرتے رہے ۔ تو حضور یہ ہے سینیئر صحافی کی عزت ،،
صحافتی دنیا میں صحافی کے وقار کی ایک اور مثال یاد آ گئی ۔ وحید قیصر صاحب اگرچہ دھیمے مزاج کے آدمی تھے لیکن کھانے کے وقت کسی بھی قسم کی مداخلت برداشت نہ تھی ۔۔ کئی بارایسا ہوا مجید نظامی مرحوم کا فون آتا تو وحید صاحب آپریٹر کے ذریعہ کہلا بھیجتے کھانے کے بعد بات کرتا ہوں ،، نظامی صاحب قطعا برا نہ مانتے اور بعد میں بات ہو جاتی ۔ واضح رہے کہ اس وقت کے پاکستان میں میر خلیل الرحمان صاحب اور مجید نظامی صاحب کسی ادارے کے تنخواہ دار کرسی نشین نہیں تھے ، اپنے وقت کے طاقتور ترین ، نہ بکنے ، نہ جھکنے والے اردو روزناموں کے مالک و مختار تھے لیکن جب بات صحافی اور صحافتی اقدار کی ہو تو ان دونوں مرحومین سے زیادہ حلیم الطبع کوئی نہ تھا ۔ صحافت کے میدان کارزار میں بہت سے ایسے نام ہیں جو کبھی طاقت کے زعم کا شکار نہ ہوئے بلکہ اپنے سے جونیئر کی تکریم کا بھی خاص خیال رکھتے ہیں ۔۔۔ تو حضور یہ ہے سینیئر صحافی کی عزت ،،
غرور اور تکبر کا نصیحت آموز واقعہ مجھ ناچیز سے بھی وابستہ ہے ، جس کی یاد آج بھی رونگھٹے کھڑے کردیتی ہے ۔ 1992 میں روزنامہ پاکستان کا اسلام آباد سے اجرا ہوا تو صبح کی شفٹ میں نیوذ ایڈیٹر بنا دیا گیا ۔ جوانی کا نشہ ، کرسی کے نشے سے مل جائے تو نشہ دو آتشہ ہو جاتا ہے ۔ ایک سب ایڈیٹر دو یوم کی رخصت پر مظفرآباد اپنے گھر گیا ، ہفتہ بھر گزار کر آیا ۔ میں نے چھوٹتے ہی پوچھا ؟ کہاں تھے تم ؟ دو دن کی چھٹی اور ہفتہ بھر غائب ؟ نوکری کرنی ہے یا نہیں ؟ میرے لہجے میں رعونت نمایاں تھی لیکن میری غضبناک آنکھوں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ۔۔ بس اتنا کہہ سکا ،، والدہ کا انتقال ہو گیا تھا ،،، میری تو جیسے جان ہی نکل گئی ۔۔۔ گھر میں بستر پر پڑے عارضہ قلب میں مبتلا والد صاحب کا خیال آگیا ،، اٹھا ، ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی ، گلے لگایا اور اس کے سارے آنسو اپنے دامن میں بھر لئے ۔۔۔ کبھی کبھار تکبر انسان کو اپنی ہی نظروں میں گرا دیتا ہے
آم اور سیب کے پیڑ کی شناخت ، پھل کے جھاڑ سے نہیں ہوتی ، ان درختوں کا نام ہی ان کی اصل شناخت ہے ،،، بزرگ حسین نقی کا تعارف یہ نہیں کہ انہوں نے صحافتی ، ادبی اور انسانی حقوق کے محاذ پر کیا کچھ اور کتنا کام کیا ؟ کون کون سااخبار نکالا یاکس کس کی ادارت سنبھالی ؟ یا پھر کرہ ارض پر پھیلی انسانوں کی بستی کا کون کون نفس ان کی تعلیم و تربیت سے بہرہ مند ہو کر انسانیت کی مسند کاملیت پر فائز ہو گیا ؟ حسین نقی بذات خود موجود انسانی تاریخ کی درخشاں کہکشاں کا ایک ستارہ ہیں ،،، دنیائے علم و فن کا معترف اور معتبرنام ہیں ،، لہذا مٹتی ہوئی اقدار اور بے ادبی کی رذالت میں لتھڑے اس زمانے میں بچ رہنے والے حسین نقی اور ان کے ہمعصروں کا دم غنیمت ہے ، ان کی عزت و توقیر کا خیال رکھا جانا چاہیئے،،
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں ،،،
تاریخ کی ضخیم کتابوں اور ماضی کی بلیک اینڈ وائٹ فلموں میں جابجا دیکھا کہ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب گھنگھرو پہننے والی ، نخرہ و ناز دکھانے والی رقاصاوں کے بالاخانے مشرقی تہذیب کی نشست و برخاست سکھانے کے مستند مدارس تھے ۔ آج جبکہ علم و فن کی ڈگریاں ، ریوڑیوں کے مول بٹ رہی ہیں ، گھر بنیادوں سے لیکر چھتوں اور منڈیروں تک دنیاوی علوم کی چکا چوند سے منور ہیں ، پھر کیا ہوا کہ مائیں ، اپنے نونہالوں کو معاشرتی زندگی گزارنے کا ہنر سکھانے سے بھی قاصر ہیں ۔ آپ جناب اور تو تڑاک کا فرق زمانوں کا نہیں نسلوٕں کا ہے ۔ اس ناسٹیلجیا کا صرف میں ہی واحد شکار نہیں ، 50 کے پیٹے میں آنیوالے ہر شخص کویہ خوش گمانی ہے کہ ہماری مائیں چونکہ تہذیب اور تمدن کے ایک ہی دور سے گزریں ، اس لئے ہماری پرورش میں بچے کو مہذب دنیا کا فرد بنانے کی کاوش شامل حال رہی ۔۔ بصد افسوس کہ ہمارے دور کے کچھ بدنصیب ابھی ہیں جو بوجوہ اپنی ماوں کی صحبت سے محروم رہ گئے ۔
دوستوں کا گلہ ہے کہ میں روتا بہت ہوں ۔ صاحب لوگو ! سنو یہ موم کے مجسمے کی آنکھوں سے گرنے والے وہ آنسو ہیں جو کسی دوسرے کو جلائے بغیر اپنے ہی جسم کو پگھلا دیتے ہیں ۔ اپنی صحافتی تربیت ایسے ہاتھوں میں ہوئی کہ بدتمیزی سے بھرے غلاظت کے ڈھیر سے دور ہی رہے ،، روزنامہ نوائے وقت میں قدم رکھا تو نیوز روم کی سیمی سرکل میز کے ساتھ بچھی کرسیوں پر بیٹھے کسی انٹرنی کی جرات نہ تھی کہ اپنے سے 6 ماہ سینیئر کی کرسی پر جابیٹھے ۔ اپنے وقت کے جاہ وجلال سے بھرپور نیوزایڈیٹر توصیف احمد خان صاحب ( خاں صاحب ، اب باریش ہو گئے ہیں ، چہرے پر رعب داب برقرار ہے لیکن آواز میں دھیمہ پن آ گیا ہے ) کے دور میں شہنشاہ صحافت قبلہ عباس اطہر صاحب کیلئے شیشے کا الگ کیبن بنا ، کیبن میں گھومنے والی کرسی رکھی گئی تو ہم جیسے نوآموزوں کیلئے ایک کھیل بن گیا ،، ایک ایک کر کے اٹھتے ، شاہ جی کے کیبن میں جھانکتے اور واپس مڑ آتے ۔ ایک ساتھی کچھ زیادہ ہی جوش میں آیا ، شیشے کا دروازہ سرکایا ، کیبن میں گھسا اور اچھل کر شاہ جی کی کرسی پر بیٹھ گیا ،،، نہ صرف بیٹھ گیا بلکہ جھولا جھولنے لگا ،، سیمی سرکل میز کے عین وسط میں بیٹھے توصیف احمد خان صاحب کی نظر پڑی تو وہیں سے گرجے ،، کچھ شرم آتی ہے ، تمہیں پتہ ہے کس کی کرسی پر بیٹھے ہو ۔ مانو ! نچوڑو تو خون نہیں ،، اگلے کئی دن تک ہم سب اپنی گستاخی کی معذرت کرتے رہے ۔ تو حضور یہ ہے سینیئر صحافی کی عزت ،،
صحافتی دنیا میں صحافی کے وقار کی ایک اور مثال یاد آ گئی ۔ وحید قیصر صاحب اگرچہ دھیمے مزاج کے آدمی تھے لیکن کھانے کے وقت کسی بھی قسم کی مداخلت برداشت نہ تھی ۔۔ کئی بارایسا ہوا مجید نظامی مرحوم کا فون آتا تو وحید صاحب آپریٹر کے ذریعہ کہلا بھیجتے کھانے کے بعد بات کرتا ہوں ،، نظامی صاحب قطعا برا نہ مانتے اور بعد میں بات ہو جاتی ۔ واضح رہے کہ اس وقت کے پاکستان میں میر خلیل الرحمان صاحب اور مجید نظامی صاحب کسی ادارے کے تنخواہ دار کرسی نشین نہیں تھے ، اپنے وقت کے طاقتور ترین ، نہ بکنے ، نہ جھکنے والے اردو روزناموں کے مالک و مختار تھے لیکن جب بات صحافی اور صحافتی اقدار کی ہو تو ان دونوں مرحومین سے زیادہ حلیم الطبع کوئی نہ تھا ۔ صحافت کے میدان کارزار میں بہت سے ایسے نام ہیں جو کبھی طاقت کے زعم کا شکار نہ ہوئے بلکہ اپنے سے جونیئر کی تکریم کا بھی خاص خیال رکھتے ہیں ۔۔۔ تو حضور یہ ہے سینیئر صحافی کی عزت ،،
غرور اور تکبر کا نصیحت آموز واقعہ مجھ ناچیز سے بھی وابستہ ہے ، جس کی یاد آج بھی رونگھٹے کھڑے کردیتی ہے ۔ 1992 میں روزنامہ پاکستان کا اسلام آباد سے اجرا ہوا تو صبح کی شفٹ میں نیوذ ایڈیٹر بنا دیا گیا ۔ جوانی کا نشہ ، کرسی کے نشے سے مل جائے تو نشہ دو آتشہ ہو جاتا ہے ۔ ایک سب ایڈیٹر دو یوم کی رخصت پر مظفرآباد اپنے گھر گیا ، ہفتہ بھر گزار کر آیا ۔ میں نے چھوٹتے ہی پوچھا ؟ کہاں تھے تم ؟ دو دن کی چھٹی اور ہفتہ بھر غائب ؟ نوکری کرنی ہے یا نہیں ؟ میرے لہجے میں رعونت نمایاں تھی لیکن میری غضبناک آنکھوں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ۔۔ بس اتنا کہہ سکا ،، والدہ کا انتقال ہو گیا تھا ،،، میری تو جیسے جان ہی نکل گئی ۔۔۔ گھر میں بستر پر پڑے عارضہ قلب میں مبتلا والد صاحب کا خیال آگیا ،، اٹھا ، ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی ، گلے لگایا اور اس کے سارے آنسو اپنے دامن میں بھر لئے ۔۔۔ کبھی کبھار تکبر انسان کو اپنی ہی نظروں میں گرا دیتا ہے
آم اور سیب کے پیڑ کی شناخت ، پھل کے جھاڑ سے نہیں ہوتی ، ان درختوں کا نام ہی ان کی اصل شناخت ہے ،،، بزرگ حسین نقی کا تعارف یہ نہیں کہ انہوں نے صحافتی ، ادبی اور انسانی حقوق کے محاذ پر کیا کچھ اور کتنا کام کیا ؟ کون کون سااخبار نکالا یاکس کس کی ادارت سنبھالی ؟ یا پھر کرہ ارض پر پھیلی انسانوں کی بستی کا کون کون نفس ان کی تعلیم و تربیت سے بہرہ مند ہو کر انسانیت کی مسند کاملیت پر فائز ہو گیا ؟ حسین نقی بذات خود موجود انسانی تاریخ کی درخشاں کہکشاں کا ایک ستارہ ہیں ،،، دنیائے علم و فن کا معترف اور معتبرنام ہیں ،، لہذا مٹتی ہوئی اقدار اور بے ادبی کی رذالت میں لتھڑے اس زمانے میں بچ رہنے والے حسین نقی اور ان کے ہمعصروں کا دم غنیمت ہے ، ان کی عزت و توقیر کا خیال رکھا جانا چاہیئے،،
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں ،،،
محمد شجاع
الدین
18 نومبر 2018
18 نومبر 2018
Pakistan’s Manipulation of the status of Gilgit- Baltistan
Gilgit- Baltistan is the northernmost geographical area of Pakistan occupied Kashmir. It was also known as the Northern Areas in Pakistan. It shares borders with Afghanistan’s Wakhan Corridor in the North, China in the East and Northeast, Indian administered Jammu and Kashmir to the Southeast and Azad Kashmir to the Southwest. Gilgit Baltistan is highly mountainous and covers an area of 72,971 km squared. It has a population of about a million people.
Gilgit Baltistan came into being by the merger of Ladakh Wazarat, Baltistan Districtm Gilgit Agency and the states of Nagar and Hunza. Both Azad Kashmir and Gilgit-Baltistan make up the disputed region of Pakistan administered Kashmir, as per International organizations and the United Nations. In India it is known simply as Pakistan occupied Kashmir.
In 1947 when erstwhile India was divided into the two states of Pakistan and India, the state of Jammu and Kashmir was under the rule of Hindu Raja Hari Singh, even though the majority population was that of Muslims. Upon the division of India Hari Singh kept his state of Jammu and Kashmir as an Independent state. It was neither a part of India nor Pakistan. But, Pakistan attacked his state with the help of the Western Muslim tribesmen in Kashmir and almost reached the current Kashmiri Capital of Srinagar. The Raja could not handle the onslaught and as per General Mountbatten’s suggestion, asked for help from India. In return India asked the Raja to sign the Instrument of Accession, which made the whole territory of the princely state of Jammu and Kashmir – Indian Territory.
The then Indian Prime Minister Jawaharlal Nehru, asked the UN to intervene and the United Nations passed the “United Nations Security Council Resolution 47” which stipulated that Pakistan withdraw all its forces from Kashmir. This was to be followed by a plebiscite to decide the fate of the entire state of Kashmir. But, the withdrawal never happened and the area which remained under the control of Pakistan is known as Pakistan administered Kashmir and Gilgit- Baltistan is a part of the same.
Pakistan constituted the Sunni majority areas into one administrative unit called Azad Kashmir and the Shia majority areas of Gilgit and Baltistan were called the Northern areas of Jammu and Kashmir. These areas had been leased by the King Hari Singh to the British and once Pakistan overtook these areas, they were incorporated into Pakistan and have since been ruled directly from Islamabad.
The Pakistan government approved a self-governance and reforms package for the Northern Areas which entails that the strategically-located Northern Areas will have rights akin to those of Pakistan’s four provinces, (Punjab, Sind, NWFP, Balochistan). The “Gilgit- Baltistan Empowerment and Self Governance Order 2009” also aims at giving the Northern Areas “full internal autonomy” and changing the region’s name to Gilgit-Baltistan. Under the new system, the Northern Areas will have a province-like status without actually being conferred such a status constitutionally. The region will vote for a legislative assembly, elections to which are to be held in the next three months and a chief minister will govern the region, replacing direct rule by Islamabad
Since then various governments in Pakistan have tried to merge Gilgit-Baltistan into their political structure and the 2009 announcement by Pakistani government, which espoused the idea of Gilgit Baltistan Empowerment and Self-Governance, probably stemmed from the fact that the 2007 EU Kashmir report which was passed by overwhelming majority had put the Pakistani government under a lot of pressure.
In her report Baroness Emma Nicholson, who also was the Vice-Chairman of the European Parliament‘s Committee on Foreign Affairs at the time, deplored the outbreaks of violence in Karachi and said that the overwhelming need of the hour, is to „secure an independent justice system to address the situation of the people of Pakistan, and particularly those of AJK (Ajad Jammu and Kashmir) and Gilgit and Baltistan“.
She also stated that Pakistan has consistently failed to fulfill its obligations to introduce meaningful and representative democratic structures on its side of Kashmir and expressed her concern about the fact that the region enjoys no form of democratic representation whatsoever.
People in Gilgit-Baltistan feel that in the name of “Empowering people”, the Pakistan government actually wants to annex Gilgit-Baltistan just as they had annexed the state of Chitral, which is now a part of Malakand Division of Pakistan.
Jurgen Creutzmann MEP
Nehru sat unmoved as Pakistan took Gilgit
Gilgit Baltistan Independence Coupled with Depriviation
Pakistan as China’s force-muliplier against India